Maktaba Wahhabi

664 - 644
عرب ____محلِ وقوع اور قومیں سیرتِ نبوی درحقیقت اس پیغام ربانی کے عملی پَر تَو سے عبارت ہے ، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قول وفعل اور ارشادوسلوک کے ذریعہ انسانی جمعیت کے سامنے پیش کیا تھا اور جس کے ذریعے زندگی کے پیمانے بدل دیئے تھے۔ برائی کو اچھائی سے تبدیل کردیا تھا اور انسان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں اور بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کردیا تھا۔ یہاں تک کہ دنیائے انسانیت میں تاریخ کی لائن اور زندگی کا دھارا بدل دیاتھا۔ چونکہ اس سیرتِ طیّبہ کی مکمل صورت گری ممکن نہیں جب تک کہ اس پیغامِ ربّانی کے نزول سے پہلے کے حالات اور بعد کے حالات کا تقابل نہ کیا جائے اس لیے اصل بحث سے پہلے پیش نظر باب میں اسلام سے پہلے کی عرب اقوام اور ان کی نشوونما، حکومتیں،امارات ، اس وقت کے قبائلی نظم ، ادیان وملل، عادات ورسوم،سیاست واجتماع ، اور اقتصاد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ان حالات کا خاکہ پیش کیا جارہا ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی۔ عرب کا محلِ وقوع: لفظ عرب صحر ااور بے آب وگیا ہ زمین کا معنی بتلاتا ہے۔ عہد قدیم سے یہ لفظ جزیرہ نمائے عرب اور اس میں بسنے والی قوموں پر بولا گیا ہے۔ عرب کے مغرب میں بحر احمر اور جزیرہ نمائے سینا ہے۔ مشرق میں خلیج عرب اور جنوبی عراق کا ایک بڑا حصہ ہے۔ جنوب میں بحر عرب ہے جو درحقیقت بحر ہند کا پھیلاؤ ہے۔ شمال میں ملک شام اور کسی قدر شمالی عراق ہے۔ ان میں سے بعض سرحدوں کے متعلق اختلاف بھی ہے، کل رقبے کا اندازہ دس لاکھ سے تیرہ لاکھ مربع میل تک کیا گیا ہے۔ جزیرہ نمائے عرب طبعی اور جغرافیائی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اندرونی طور پر یہ ہر چہار جانب سے صحرا اور ریگستان سے گھرا ہوا ہے جس کی بدولت یہ ایسا محفوظ قلعہ بن گیا ہے کہ بیرونی قوموں کے لیے اس پر قبضہ کرنا اور اپنا اثر ونفوذ پھیلانا سخت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قلب جزیرۃ العرب کے باشندے عہدِقدیم سے اپنے جملہ معاملات میں مکمل آزاد وخود مختار نظر آتے ہیں حالانکہ یہ ایسی دو عظیم طاقتوں کے ہمسایہ تھے کہ اگر یہ ٹھوس قدرتی رکاوٹ نہ ہوتی تو ان کے حملے روک لینا باشندگانِ عرب کے بس کی بات نہ تھی۔ بیرونی طور پر جزیرہ نمائے عرب پرانی دنیا کے تمام معلوم برّ اعظموں کے بیچوں بیچ واقع ہے اور
Flag Counter