Maktaba Wahhabi

1169 - 644
خلاف ورزی کی ہے اور آپ کا پُختہ پیمان توڑدیا ہے۔ انہوں نے میرے لیے کداء میں گھات لگائی اور یہ سمجھا کہ میں کسی کو (مدد کے لیے ) نہ پکاروں گا۔ حالانکہ وہ بڑے ذلیل اور تعداد میں قلیل ہیں۔ انہوں نے وتیر پر رات میں حملہ کیا اور ہمیں رکوع وسجود کی حالت میں قتل کیا۔‘‘(یعنی ہم مسلمان تھے اور ہمیں قتل کیا گیا۔ ) ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عَمرو بن سالم ! تیری مدد کی گئی۔ اس کے بعد آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا دکھائی پڑا۔ آپ نے فرمایا: یہ بادل بنو کعب کی مدد کی بشارت سے دمک رہا ہے۔ اس کے بعد بُدَیْل بن ورقاء خُزاعی کی سرکردگی میں بنو خزاعہ کی ایک جماعت مدینہ آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا کہ کون سے لوگ مارے گئے اور کس طرح قریش نے بنو بکر کی پشتیبانی کی۔ اس کے بعد یہ لوگ مکہ واپس چلے گئے۔ تجدید ِ صلح حدیبیہ کے لیے ابو سفیان مدینہ میں: اس میں شبہ نہیں کہ قریش اور ان کے حلیفوں نے جو کچھ کیا تھا وہ کھلی ہوئی بدعہدی اور صریح پیمان شکنی تھی۔ جس کی کوئی وجہ جواز نہ تھی، اسی لیے خودقریش کو بھی اپنی بدعہدی کا بہت جلداحساس ہوگیا اور انہو ں نے اس کے انجام کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مجلس مشاورت منعقد کی۔ جس میں طے کیا کہ وہ اپنے سپہ سالار ابو سفیان کو اپنا نمائندہ بناکر تجدیدِ صلح کے لیے مدینہ روانہ کریں۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتایا کہ قریش اپنی اس عہد شکنی کے بعد اب کیا کرنے والے ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ’’گویا میں ابو سفیان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عہد کو پھر سے پختہ کرنے اور مدتِ صلح کو بڑھانے کے لیے آگیا ہے ‘‘ ادھر ابو سفیان طے شدہ قرارداد کے مطابق روانہ ہوکر عُسفان پہنچا تو بُدَیل بن ورقاء سے ملاقات ہوئی۔ بُدیل مدینہ سے واپس آرہا تھا۔ ابو سفیان سمجھ گیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہوکر آرہا ہے۔ پوچھا : بُدیل ! کہا ں سے آرہے ہو ؟ بُدیل نے کہا : میں خزاعہ کے ہمراہ اس ساحل اور وادی میں گیا ہوا تھا۔ پوچھا : کیا تم محمد ؐ کے پاس نہیں گئے تھے ؟بُدیل نے کہا : نہیں۔ مگر جب بدیل مکہ کی جانب روانہ ہوگیا تو ابو سفیان نے کہا : اگر وہ مدینہ گیا تھا تو وہاں (اپنے اونٹ کو ) گٹھلی کا چارہ کھلایا ہوگا۔ اس لیے ابو سفیان اس جگہ گیا جہاں بُدیل نے اپنے اونٹ بٹھایا تھا اور اس کی
Flag Counter