Maktaba Wahhabi

925 - 644
بہتر ہے ، لیکن اگر تم (اپنی ا س حرکت کی طرف ) پلٹو گے تو ہم بھی (تمہاری سزا کی طرف ) پلٹیں گے اور تمہاری جماعت اگر چہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو تمہارے کچھ کام نہ اس کے گی۔ (اور یاد رکھوکہ ) اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔‘‘ نقطہ ٔ صفر اور معرکے کا پہلاایندھن: اس معرکے کا پہلا ایندھن اسود بن عبد الاسد مخزومی تھا۔ یہ شخص بڑا اڑیل اور بد خلق تھا۔ یہ کہتے ہوئے میدان میں نکلا کہ میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ ان کے حوض کا پانی پی کررہوں گا۔ ورنہ اسے ڈھا دوں گا یا اس کے لیے جان دے دوں گا۔ جب یہ اُدھر سے نکلا تو اِدھر سے حضرت حمزہ بن عبدا لمطلب رضی اللہ عنہ برآمد ہوئے۔ دونوں میں حوض سے پرے ہی مڈبھیڑ ہوئی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے کٹ کر اڑگیا اور وہ پیٹھ کے بل گر پڑا۔ اس کے پاؤں سے خون کا فوارہ نکل رہا تھاجس کا رخ اس کے ساتھیوں کی طرف تھا لیکن اس کے باوجود وہ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھا اور اس میں داخل ہوا ہی چاہتا تھا تا کہ اپنی قسم پوری کرلے اتنے میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے دوسری ضرب لگائی اور وہ حوض کے اندر ہی ڈھیر ہوگیا۔ مبارزت: یہ اس معرکے کا پہلا قتل تھا اور اس سے جنگ کی آگ بھڑک اُٹھی ، چنانچہ اس کے بعد قریش کے تین بہترین شہسوارنکلے جو سب کے سب ایک ہی خاندان کے تھے۔ ایک عُتبہ اور دوسرا اس کا بھائی شیبہ جو دونوں ربیعہ کے بیٹے تھے اور تیسرا ولید جو عتبہ کا بیٹا تھا۔ انہوں نے اپنی صف سے الگ ہوتے ہی دعوت مُبارزت دی۔ مقابلے کے لیے انصار کے تین جوان نکلے۔ ایک عوف رضی اللہ عنہ ، دوسرے معوذ رضی اللہ عنہ ۔ یہ دونوں حارث کے بیٹے تھے اوران کی ماں کا نام عفراء تھا ۔تیسرے عبد اللہ بن رواحہ۔ قریشیوں نے کہا : تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا : انصار کی ایک جماعت ہیں۔ قریشیوں نے کہا: آپ لو گ شریف مدمقابل ہیں لیکن ہمیں آپ سے سروکار نہیں۔ ہم تو اپنے چچیرے بھائیوں کو چاہتے ہیں، پھر ان کے منادی نے آواز لگائی: محمدؐ ____! ہمارے پاس قوم کے ہمسروں کو بھیجو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث رضی اللہ عنہ ! اٹھو۔ حمزہ رضی اللہ عنہ ! اٹھئے۔ علی! اٹھو۔ جب یہ لوگ اُٹھے اور قریشیوں کے قریب پہنچے تو انہوں نے پوچھا : آپ کو ن لوگ ہیں ؟ انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ قریشیوں
Flag Counter