Maktaba Wahhabi

1228 - 644
ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں تبدیل ہوگیا۔ پھر ہم حجۃ الوداع میں دیکھتے ہیں کہ ایک لاکھ ۲۴ ہزار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار اہلِ اسلام کا سیلاب امنڈ پڑا ہے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد اگرد اس طرح لبیک پکارتا ، تکبیر کہتا اور حمد وتسبیح کے نغمے گنگناتا ہے کہ آفاق گونج اٹھتے ہیں۔ اور وادی وکو ہسار نغمۂ توحید سے معمور ہو جاتے ہیں۔ وفود اہل مغازی نے جن وفود کا تذکرہ کیا ہے ان کی تعداد ستر سے زیادہ ہے لیکن یہاں نہ تو ان کے اِستقصاء کی گنجائش ہے اور نہ ان کے تفصیلی بیان میں کوئی بڑا فائدہ ہی مضمر ہے۔ اس لیے ہم صرف انہی وفود کا ذکر کررہے ہیں جو تاریخی حیثیت سے اہمیت و ندرت کے حامل ہیں۔ قارئین کرام کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اگر چہ عام قبائل کے وفود فتح مکہ کے بعد خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہونا شروع ہوئے تھے۔ لیکن بعض بعض قبائل ایسے بھی تھے جن کے وفود فتح مکہ سے پہلے ہی مدینہ آچکے تھے۔ یہاں ہم ان کا ذکر بھی کررہے ہیں۔ ۱۔ وفد عبد القیس : اس قبیلے کا وفد دوبار خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تھا۔ پہلی بار ۵ ھ میں یا اس سے بھی پہلے۔ اور دوسری بار عام الوفود ۹ ھ میں۔ پہلی بار اس کی آمد کی وجہ یہ ہوئی کہ اس قبیلے کا ایک شخص منقذ بن حبان سامان تجارت کے کر مدینہ آیا جایا کرتا تھا۔ وہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد پہلی بار مدینہ آیا اور اسے اسلام کا علم ہوا تو وہ مسلمان ہوگیا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط لے کر اپنی قوم کے پاس گیا۔ ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اور ان کے ۱۳ یا ۱۴ آدمیوں کا ایک وفد حرمت والے مہینے میں خدمتِ نبوی میں حاضر ہوا۔ اسی دفعہ اس وفد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان اور مشروبات کے متعلق سوال کیا تھا۔ اس وفد کا سربراہ الاشج العصری [1]تھا۔ جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے: (۱) دوراندیشی اور (۲)بُردباری۔ دوسری باراس قبیلے کا وفد جیساکہ بتایا گیا وفود والے سال میں ایا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد چالیس تھی اور ان میں علاء بن جارود عبدی تھا ، جو نصرانی تھا ، لیکن مسلمان ہو گیا اور اس کا اسلام بہت خوب رہا۔[2] ۲۔وفددَوس :یہ وفد ۷ ھ کے اوائل میں مدینہ آیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے۔ آپ پچھلے اوراق میں پڑھ چکے ہیں کہ اس قبیلے کے سربراہ حضرت طُفیل بن عَمرو دوسی رضی اللہ عنہ اس وقت بگوش ِ اسلام ہوئے تھے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے۔ پھر انہوں نے اپنی قوم میں واپس جاکر اسلام کی دعوت وتبلیغ کاکام مسلسل کیا لیکن ان کی قوم برابر ٹالتی اور تاخیر کرتی رہی۔ یہاں تک کہ حضرت طفیل ان کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پھر انہوں نے خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ قبیلہ دوس پر
Flag Counter