Maktaba Wahhabi

1161 - 644
میں مسلمانوں کے ساتھ تھا۔ ہم نے جعفر بن ابی طالب کو تلاش کیا تو انہیں مقتولین میں پایا اور ان کے جسم میں نیزے اور تیر کے نوے سے زیادہ زخم پائے۔[1]نافع سے عمرہی کی روایت میں اتنا اور اضافہ ہے کہ ہم نے یہ سب زخم ان کے جسم کے اگلے حصے میں پائے۔[2] اس طرح کی شجاعت وبسالت سے بھر پور جنگ کے بعدجب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بھی شہید کردیے گئے تو اب حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے پرچم اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر سوار آگے بڑھے اور اپنے آپ کو مقابلہ کے لیے آمادہ کرنے لگے۔ لیکن انہیں کسی قدر ہچکچاہٹ ہوئی، حتیٰ کہ تھوڑا سا گریز بھی کیا، لیکن اس کے بعد کہنے لگے : أقسمت یا نفس لتنزلنہ کارہۃ أو لتطاوعنہ إن أجلب الناس وشدوا الرنہ ما لی أراک تکرہین الجنۃ ’’اے نفس! قسم ہے کہ تو ضرور مدّ ِ مقابل اُتر ، خواہ ناگواری کے ساتھ خواہ خوشی خوشی، اگر لوگوں نے جنگ برپا کررکھی ہے اور نیزے تان رکھے ہیں تو میں تجھے کیوں جنت سے گریزاں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اس کے بعد وہ مدمقابل میں اترے۔ اتنے میں ان کا چچیرا بھائی ایک گوشت لگی ہو ئی ہڈی لے آیا اور بولا: اس کے ذریعہ اپنی پیٹھ مضبوط کر لو۔ کیونکہ ان دنوں تمہیں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انہوں نے ہڈی لے کر ایک بار نوچی پھر پھینک کر تلوار تھام لی۔ اور آگے بڑھ کر لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ جھنڈا ، اللہ کی تلوار وں میں سے ایک تلوار کے ہاتھ میں : اس موقع پر قبیلہ بنو عجلان کے ثابت بن ارقم نامی ایک صحابی نے لپک کر جھنڈا اٹھا لیا اور فرمایا : مسلمانو ! اپنے کسی آدمی کو سپہ سالار بنا لو ، صحابہ نے کہا : آپ ہی یہ کام انجام دیں۔ انہوں نے کہا:میں یہ کام نہیں کرسکوں گا۔ اس کے بعد صحابہ نے حضرت خالد بن ولید کو منتخب کیا اور انہوں نے جھنڈا لیتے ہی نہایت پرزور جنگ کی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں خود حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنگ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی سی تلوار) باقی بچا۔[3] اور ایک دوسری روایت میں ان کا بیان اس طرح مروی ہی کہ میرے ہاتھ میں جنگ موتہ کے روز نو تلواریں ٹوٹ گئیں اورایک
Flag Counter