Maktaba Wahhabi

928 - 644
’’عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی کنکریلی مٹی لی اور قریش کی طرف رُخ کر کے فرمایا: ((شاھتِ الوجوہ۔))چہرے بگڑ جائیں اور ساتھ ہی مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی۔ پھر مشرکین میں سے کوئی بھی نہیں تھا جس کی دونوں آنکھوں،نتھنے اور منہ میں اس ایک مٹھی مٹی سے کچھ نہ کچھ گیا نہ ہو۔ اسی کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّٰهَ رَمَى﴾(۸: ۱۷) ’’جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے پھینکا تو درحقیقت آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔‘‘ جوابی حملہ: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابی حملے کا حکم اور جنگ کی ترغیب دیتے ہو ئے فرمایا: ’’شدوا‘‘ چڑھ دوڑو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! ان سے جو آدمی بھی ڈٹ کر ، ثواب سمجھ کر ، آگے بڑھ کر اور پیچھے نہ ہٹ کر لڑے گا اور مار اجائے گا اللہ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال پر ابھارتے ہوئے یہ بھی فرمایا : اس جنت کی طرف اٹھو جس کی پہنائیاں آسمانوں اور زمین کے برابر ہیں۔ (آپ ؐ کی یہ بات سن کر ) عمیر بن حمام نے کہا : بہت خوب بہت خوب۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم بہت خوب بہت خوب ، کیوں کہہ رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ مجھے توقع ہے کہ میں بھی اسی جنت والوں میں سے ہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بھی اسی جنت والوں میں سے ہو۔ اس کے بعد وہ اپنے توشہ دان سے کچھ کھجوریں نکال کر کھانے لگے۔ پھر بولے : اگر میں اتنی دیر تک زندہ رہا کہ اپنی کھجوریں کھا لوں تو یہ تولمبی زندگی ہوجائے گی، چنانچہ ان کے پاس جو کھجور یں تھیں انہیں پھینک دیا، پھر مشرکین سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔[1] اسی طرح مشہور خاتون عفراء کے صاحبزادے عوف بن حارث نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! پروردگار اپنے بندے کی کس بات سے (خوش ہوکر ) مسکراتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس بات سے کہ بندہ خالی جسم (بغیر حفاظتی ہتھیار پہنے ) اپنا ہاتھ دشمن کے اندر ڈبودے ‘‘ یہ سن کر عوف نے اپنے بدن سے زِرہ اتار پھینکی اور تلو ار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور لڑتے
Flag Counter