Maktaba Wahhabi

721 - 644
بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تَیم بن مُرّہ نے اس کا اہتمام کیا۔ یہ لوگ عبداللہ بن جُدْعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے…کیونکہ وہ سن وشرف میں ممتاز تھا …اور آپس میں عہد وپیمان کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا۔ خواہ مکے کا رہنے والاہویا کہیں اور کا ، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرفِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے۔ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سُرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر (دور) اسلام میں اس عہد وپیمان کے لیے مجھے بلا یا جاتا تو میں لبیک کہتا۔ [1] اس معاہدے کی روح عصبیت کی تہہ سے اٹھنے والی جاہلی حمیت کے منافی تھی۔ اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا حق روک لیا۔ اس نے حلیف قبائل عبد الدار ، مخزوم ، جمح ، سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے۔ جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی۔ اس پر زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے ؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے ، پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔ [2] جفاکشی کی زندگی: عنفوان شباب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی معین کام نہیں تھا، البتہ یہ خبر متواتر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریاں چراتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی سعد کی بکریاں چرائیں[3] اور مکہ میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض چراتے رہے ۔[4] پچیس سال کی عمر ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما کا مال لیکر تجارت کے لئے ملک شام تشریف لے گئے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے، کہ خدیجہ بنت خویلد ایک معزز مالدار تاجر خاتون تھیں، لوگوں کو اپنا مال تجارت کے لئے دیتی تھیں اور مضاربت کے اصول پر ایک حصہ طے کر لیتی تھیں۔ پورا قبیلہ قریش ہی تجارت پیشہ تھا۔جب انہیں
Flag Counter