Maktaba Wahhabi

933 - 644
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لاکر حاضر کر تے ہوئے عرض کیا :’’یارسول اللہ !یہ رہا اللہ کے دشمن ابوجہل کا سر۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ’’واقعی۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ((اللّٰه أکبر، الحمد للّٰه الذی صدق وعدہ ونصر عبدہ وہزم الأحزاب وحدہ)) ’’اللہ اکبر ، تمام حمد اللہ کے لیے ہے جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھا یا ، اپنے بندے کی مدد فرمائی ، اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔‘‘ پھر فرمایا : چلو مجھے اس کی لاش دکھاؤ۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جاکر لاش دکھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اس امت کا فرعون ہے۔ ایمان کے تابناک نقوش: حضرت عمیر بن الحمام اور حضرت عوف بن حارث ابن عَفراء کے ایمان افروز کارناموں کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معرکے میں قدم قدم پر ایسے مناظر پیش آئے جن میں عقیدے کی قوت اور اصول کی پختگی نمایاں اور جلوہ گر تھی۔ اس معرکے میں باپ اور بیٹے میں بھائی اور بھائی میں صف آرائی ہوئی۔ اصولوں کے اختلاف پر تلواریں بے نیام ہوئیں اور مظلوم ومقہور نے ظالم وقاہر سے ٹکر ا کر اپنے غصے کی آگ بجھائی۔ 1۔ابن اسحاق نے ابن ِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا :’’مجھے معلوم ہے کہ بنو ہاشم وغیرہ کے کچھ لوگ زبردستی میدانِ جنگ میں لائے گئے ہیں۔ انھیں ہماری جنگ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ لہٰذا بنو ہاشم کا کوئی آدمی کسی کی زد میں آجائے تو وہ اسے قتل نہ کرے۔ ابو البختری بن ہشام کسی کی زد میں آجائے تو وہ اُسے قتل نہ کرے اور عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کسی کی زد میں آجائیں تو وہ بھی انہیں قتل نہ کرے کیونکہ وہ بالجبر لائے گئے ہیں۔‘‘ اس پر عُتبہ کے صاحبزادے حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا :’’کیا ہم اپنے باپ بیٹوں ، بھائیوں اور کنبے قبیلے کے لوگوں کو قتل کریں گے اور عباس کو چھوڑ دیں گے اللہ کی قسم ! اگر اس سے میری مڈبھیڑ ہوگئی تو میں تو اسے تلوار کی لگام پہنادوں گا ‘‘ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے چہرے پر تلوار ماری جائے گی ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’یارسول اللہ ! مجھے چھوڑیے میں تلوارسے اِس
Flag Counter