Maktaba Wahhabi

875 - 644
پہلا مرحلہ: ہجرت کے وقت مدینہ کے حالا ت ہجرت کا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ فتنے اور تمسخر کا نشانہ بننے سے نجات حاصل کر لی جائے بلکہ اس میں یہ مفہوم بھی شامل تھا کہ ایک پُر امن علاقے کے اندر ایک نئے معاشرے کی تشکیل میں تعاون کیا جائے۔ اسی لیے ہرصاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض قرار پایا تھا کہ اس وطنِ جدید کی تعمیر میں حصہ لے اور اس کی پختگی ، حفاظت اور رفعتِ شان میں اپنی کوشش صرف کرے۔ یہ بات توقطعی طور پر معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس معاشرے کی تشکیل کے امام، قائد اور رہنماتھے۔ اور کسی نزاع کے بغیر سارے معالات کی باگ ڈور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھ میں تھی۔ مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین طرح کے قوموں سے سابقہ درپیش تھا جن میں سے ہر ایک کے حالات دوسرے سے بالکل جداگانہ تھے اور ہر ایک قوم کے تعلق سے کچھ خصوصی مسائل تھے جودوسری قوموں کے مسائل سے مختلف تھے۔ یہ تینوں اقوام حسبِ ذیل تھیں : 1۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکباز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی منتخب اور ممتاز جماعت۔ 2۔ مدینے کے قدیم اور اصلی قبائل سے تعلق رکھنے والے مشرکین ، جو اب تک ایمان نہیں لائے تھے۔ 3۔ یہود۔ )الف ) ____صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن مسائل کا سامنا تھا ان کی توضیح یہ ہے کہ ان کے لیے مدینے کے حالات مکے کے حالات سے قطعی طور پر مختلف تھے۔ مکے میں اگر چہ ان کا کلمہ ایک تھا اور ان کے مقاصد بھی ایک تھے مگر وہ خود مختلف گھرانوں میں بکھر ے ہوئے تھے اور مجبور ومقہور اور ذلیل وکمزور تھے۔ ان کے ہاتھ میں کسی طرح کا کوئی اختیار نہ تھا۔ سارے اختیار دشمنان دین کے ہاتھوں میں تھے اور دنیا کا کوئی بھی انسانی معاشرہ جن اجزاء اور لوازمات سے قائم ہوتا ہے مَکہ کے مسلمانوں کے پاس وہ اجزاء سرے سے تھے ہی نہیں کہ ان کی بنیاد پر کسی نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل کرسکیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مکی سورتوں میں صرف اسلامی مبادیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور صرف ایسے احکامات نازل کیے گئے ہیں جن پر ہر آدمی تنہا عمل کرسکتا ہے۔ اس کے
Flag Counter