Maktaba Wahhabi

886 - 644
اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا…دروازے کے بازو کے دونوں پائے پتھر کے بنائے گئے۔ دیواریں کچی اینٹ اور گارے سے بنائی گئیں۔ چھت پر کھجور کی شاخیں اور پتے ڈلوادیئے گئے اور کھجور کے تنوں کے کھمبے بنادیے گئے۔ زمین پر ریت اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں (چھریاں) بچھادی گئیں۔ تین دروازے لگا ئے گئے۔ قبلے کی دیوار سے پچھلی دیوار تک ایک سو ہاتھ لمبائی تھی۔ چوڑائی بھی اتنی یااس سے کچھ کم تھی۔ بنیاد تقریباًتین ہاتھ گہری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے بازو میں چند مکانات بھی تعمیر کیے جن کی دیواریں کچی اینٹ کی تھیں اور چھتیں کھجور کے تنوں کی کڑیاں دے کر کھجور کی شاخ اور پتوں سے بنائی گئی تھی۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے حجرے تھے۔ ان حجروں کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان سے یہیں منتقل ہوگئے۔[1] مسجد محض ادائے نماز ہی کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک یونیورسٹی تھی جس میں مسلمان اسلامی تعلیمات وہدایات کا درس حاصل کرتے تھے اور ایک محفل تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور باہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد اب میل محبت سے مل جل رہے تھے۔ نیز یہ ایک مرکز تھا جہاں سے اس ننھی سی ریاست کا سارانظام چلایا جاتا تھا اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ کی بھی تھی جس میں مجلسِ شوریٰ اور مجلس ِ انتظامیہ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ یہ مسجد ہی ان فقراء مہاجرین کی ایک خاصی بڑی تعدادکا مسکن تھی جن کا وہاں پر نہ کوئی مکان تھا نہ مال اور نہ اہل وعیال۔ پھر اوائل ہجرت ہی میں اذان بھی شروع ہوئی۔ یہ ایک لاہوتی نغمہ تھا جو روز انہ پانچ بار اُفق میں گونجتا تھا اور جس سے پورا عالمِ وجود لرز اٹھتا تھا۔ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا اور یہی خواب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی دیکھا۔ (تفصیل جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، مسند احمد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے ) مسلمانوں میں بھائی چارگی: جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کا اہتمام فرماکر باہمی اجتماع اور میل ومحبت کے ایک مرکز کو
Flag Counter