Maktaba Wahhabi

992 - 644
نے تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو گھیرنا شروع کردیا۔ اب ہم دونوں کی تفصیلات الگ الگ ذکرکررہے ہیں۔ مسلمانوں میں انتشار : جب مسلمان نرغے میں آگئے تو ایک گروہ تو ہوش کھو بیٹھا، اسے صرف اپنی جان کی پڑی تھی۔ چنانچہ اس نے میدان ِ جنگ چھوڑ کر فرار کی راہ اختیار کی۔ اسے کچھ خبر نہ تھی کہ پیچھے کیا ہورہا ہے ؟ ان میں سے کچھ تو بھاگ کر مدینے میں جاگھسے۔ اور کچھ پہاڑ کے اُوپر چڑھ گئے۔ ایک اور گروہ پیچھے کی طرف پلٹا تو مشرکین کے ساتھ مخلوط ہوگیا۔ دونوں لشکر گڈ مڈ ہوگئے۔ اور ایک دوسرے کا پتہ نہ چل سکا۔ اس کے نتیجے میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں بعض مسلمان مار ڈالے گئے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ احد کے روز (پہلے ) مشرکین کو شکست فاش ہوئی۔ اس کے بعد ابلیس نے آواز لگائی کہ اللہ کے بندو ! پیچھے ____اس پر اگلی صف پلٹی اور پچھلی صف سے گتھ گئی۔ حذیفہ نے دیکھا کہ ان کے والد یمان پر حملہ ہورہا ہے۔ وہ بولے : اللہ کے بندو ! میرے والد ہیں۔ لیکن اللہ کی قسم! لوگوں نے ان سے ہاتھ نہ روکا۔ یہاں تک کہ انہیں مار ہی ڈالا۔ حذیفہ نے کہا : اللہ آپ لوگوں کی مغفرت کرے۔ حضرت عروہ کا بیان ہے کہ واللہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ میں ہمیشہ خیر کا بقیہ رہا یہاں تک کہ وہ اللہ سے جاملے۔[1] غرض اس گروہ کی صفوں میں سخت انتشار اور بد نظمی پیدا ہوگئی تھی۔ بہت سے لوگ حیران وسرگرداں تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کدھر جائیں۔ اسی دوران ایک پکار نے والے کی پکار سنائی پڑی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیئے گئے ہیں۔ اس سے رہا سہا ہوش بھی جاتا رہا۔ اکثر لوگوں کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ بعض نے لڑائی سے ہاتھ روک لیا اور درماندہ ہو کر ہتھیار پھینک دیئے۔ کچھ اور لوگوں نے سوچا کہ رأس المنافقین عبد اللہ بن اُبی سے مل کر کہا جائے کہ وہ ابو سفیان سے ان کے لیے امان طلب کردے۔ چند لمحے بعد ان لوگوں کے پاس حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا۔ دیکھا کہ
Flag Counter