Maktaba Wahhabi

1213 - 644
جمع کرلیا ہے، اور ان کا ہراول دستہ بلقاء پہنچ چکا ہے، اس طرح ایک بڑا خطرہ مجسم ہوکر مسلمانوں کے سامنے آگیا۔ حالات کی نزاکت میں اضافہ : پھر جس بات سے صورت حال کی نزاکت میں مزید اضافہ ہورہا تھا وہ یہ تھی کہ زمانہ سخت گرمی کا تھا۔ لوگ تنگی اور قحط سالی کی آزمائش سے دوچار تھے۔ سواریاں کم تھیں۔ پھل پک چکے تھے، اس لیے لوگ پھل اور سائے میں رہنا چاہتے تھے۔ وہ فی الفور روانگی نہ چاہتے تھے۔ ان سب پر مستزاد مسافت کی دوری اور راستے کی پیچیدگی اور دشواری تھی۔ !نابت بن اسماعیل علیہ السلام کی نسل ، جنہیں ایک وقت پٹرا اور شمالی حجاز میں بڑا عروج حاصل تھا۔ زوال کے بعد رفتہ رفتہ یہ لوگ معمولی کسانوں اور تاجروں کے درجہ میں آگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک قطعی اقدام کا فیصلہ : لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالات وتغیرات کا مطالعہ کہیں زیادہ دقت ِ نظر سے فرمارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ رہے تھے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فیصلہ کن لمحات میں رومیوں سے جنگ لڑنے میں کاہلی اور سستی سے کام لیا ، رومیوں کو مسلمانوں کے زیر اثر علاقوں میں گھسنے دیا ، اور وہ مدینہ تک بڑھ اور چڑھ آئے تو اسلامی دعوت پر اس کے نہایت بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلمانوں کی فوجی ساکھ اکھڑ جائے گی اور وہ جاہلیت جو جنگِ حنین میں کاری ضرب لگنے کے بعد آخری دم توڑ رہی ہے ، دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔ اور منافقین جو مسلمانوں پر گردش ِ زمانہ کا انتظار کررہے ہیں ، اور ابو عامر فاسق کے ذریعہ شاہ روم سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں ، پیچھے سے عین اس وقت مسلمانوں کے شکم میں خنجر گھونپ دیں گے ، جب آگے سے رومیوں کا ریلا ان پر خونخوار حملے کررہا ہوگا۔ اس طرح وہ بہت ساری کوشش رائیگاں چلی جائیں گی جو آپ نے اور آپ کے صحابہ ٔ کرام نے اسلام کی نشر واشاعت میں صرف کی تھیں۔ اور بہت ساری کامیابیاں ناکامی میں تبدیل ہوجائیں گی جو طویل اور خونریز جنگوں اور مسلسل فوجی دوڑ دھوپ کے بعد حاصل کی گئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نتائج کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ ا س لیے عُسرت وشدت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کیا کہ رومیوں کودار الاسلام کی طرف پیش قدمی کی مہلت دیے بغیر خود ان کے علاقے اور حدود میں گھس کر ان کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنی ہے۔ رومیوں سے جنگ کی تیاری کا اعلان: یہ معاملہ طے کر لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اعلان فرمادیا کہ لڑائی کی تیاری کریں۔ قبائل عرب اور اہلِ مکہ کو بھی پیغام دیا کہ لڑائی کے لیے نکل پڑیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو کسی اور ہی جانب کا توریہ کرتے۔ لیکن صورت حال کی نزاکت اور تنگی کی شدت کے سبب اب کی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف اعلان فرمادیا کہ رومیوں سے جنگ کا ارادہ ہے تاکہ لوگ مکمل تیاری کرلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
Flag Counter