Maktaba Wahhabi

1096 - 644
تو قریش نے پیشکش کی کہ آپ بیت اللہ کا طواف کرلیں۔ مگر آپ نے یہ پیش کش مسترد کردی اور یہ گورا نہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طواف کرنے سے پہلے خود طواف کر لیں۔ حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ اور بیعت رضوان : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی سفارت کی مہم پوری کر چکے تھے ، لیکن قریش نے انہیں اپنے پاس روک لیا۔ غالباً وہ چاہتے تھے کہ پیش آمدہ صورتِ حال پر باہم مشورہ کر کے کوئی قطعی فیصلہ کرلیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے لائے ہوئے پیغام کا جواب دے کر واپس کریں، مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیر تک رُکے رہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا: ہم اس جگہ سے ٹل نہیں سکتے یہاں تک کہ لوگوں سے معرکہ آرائی کرلیں۔ پھر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیعت کی دعوت دی۔ صحابہ کرام ٹوٹ پڑے۔ اور اس پر بیعت کی کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے۔ ایک جماعت نے موت پر بیعت کی۔ یعنی مر جائیں گے مگر میدان ِ جنگ نہ چھوڑیں گے۔ سب سے پہلے ابو سنان اسدی نے بیعت کی۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے تین بار بیعت کی۔ شروع میں ، درمیان میں اور اخیر میں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا ہاتھ پکڑکر فرمایا: یہ عثمان کا ہاتھ ہے، پھر جب بیعت مکمل ہوچکی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی آگئے اور انہوں نے بھی بیعت کی۔ اس بیعت میں صرف ایک آدمی نے جو منافق تھا شرکت نہیں کی ، اس کا نام جد بن قیس تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دست مبارک تھا مے ہوئے تھے۔ اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے درخت کی بعض ٹہنیاں پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے ہٹا رکھی تھیں۔ اسی بیعت کا نام بیعت ِ رضوان ہے۔ اور اسی کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے: ﴿ لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ﴾(۴۸: ۱۸) ’’اللہ مومنین سے راضی ہوا۔ جب کہ وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔‘‘ صلح اور دفعات ِ صلح: بہر حال قریش نے صورتِ حال کی نزاکت محسوس کرلی۔ لہٰذا جھٹ سُہیل بن عَمرو کو معاملات صلح طے کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اور یہ تاکید کردی کہ صلح میں لازما ً یہ بات طے کی جائے کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ عرب یہ کہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شہر میں جبراً داخل ہوگئے۔ ان ہدایات کو لے کر سہیل بن عمرو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آتا دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا۔ تمہارا کا م تمہارے لیے سہل کردیا گیا۔ اس شخص کو بھیجنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ قریش صلح چاہتے ہیں۔ سُہیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر دیر تک گفتگو کی۔ اور بالآخر طَرفَین میں صلح کی دفعات طے ہوگئیں
Flag Counter