Maktaba Wahhabi

1223 - 644
حج ۹ ھ ( زیر امارت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ) اسی سال ذی قعدہ یا ذی الحجہ ۹ ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسک ِ حج قائم کرنے کی غرض سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحج بناکر روانہ فرمایا۔ اس کے بعد سورۂ براء ت کا ابتدائی حصہ نازل ہوا۔ جس میں مشرکین سے کیے گئے عہدوپیمان کو برابری کی بنیاد پر ختم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس حکم کے آجانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا۔ تاکہ وہ آپ کی جانب سے اس کا اعلان کردیں۔ ایسا اس لیے کرنا پڑا کہ خون اور مال کے عہدوپیمان کے سلسلے میں عرب کا یہی دستور تھا (کہ آدمی یا تو خود اعلان کرے یا اپنے خاندان کے کسی فرد سے اعلان کرائے۔ خاندان سے باہر کے کسی آدمی کا کیا ہوااعلان تسلیم نہیں کیا جاتا تھا ) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ملاقات عرج یاوادیٔ ضبحنان میں ہوئی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ امیر ہو یا مامور ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں بلکہ مامور ہوں۔ پھر دونوں آگے بڑھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حج کرایا۔ جب (دسویں تاریخ ) یعنی قربانی کا دن آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے جمرہ کے پاس کھڑے ہوکر لوگوں میں وہ اعلان کیا جس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ یعنی تمام عہد والوں کا عہد ختم کردیا۔ اور انہیں چار مہینے کی مہلت دی۔ اسی طرح جن کے ساتھ کوئی عہد وپیمان نہ تھا انہیں بھی چار مہینے کی مہلت دی گئی۔ البتہ جن مشرکین نے مسلمانوں سے عہد نبھانے میں کوئی کوتاہی نہ کی تھی اور نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد کی تھی، ان کا عہد ان کی طے کردہ مدت تک برقرار رکھا۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھیج کر یہ اعلانِ عام کرایا کہ آئندہ سے کوئی مشرک حج نہیں کرسکتا اور نہ کوئی ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف کرسکتا ہے۔ یہ اعلان گویا جزیرۃ العرب سے بُت پرستی کے خاتمے کا اعلان تھا، یعنی اس سال کے بعد بُت پرستی کے لیے آمدورفت کی کوئی گنجائش نہیں۔[1] ٭٭٭
Flag Counter