Maktaba Wahhabi

1198 - 644
قیدیوں میں شیماء بنت حارث سعدیہ بھی تھیں۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن تھیں۔ جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک علامت کے ذریعہ پہچان لیا۔ پھر ان کی بڑی قدر وعزت کی۔ اپنی چادر بچھاکر بٹھا یا اور احسان فرماتے ہوئے انہیں ان کی قوم میں واپس کردیا۔ ٭٭٭ غزوہ طائف یہ غزوہ درحقیقت غزوۂ حنین کا امتداد ہے۔ کیونکہ ہوازن و ثقیف کے بیشتر شکست خوردہ افراد اپنے جنرل کمانڈر مالک بن عوف نصری کے ساتھ بھاگ کر طائف ہی آئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہوگئے تھے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین سے فارغ ہوکر اور جعرانہ میں مال غنیمت جمع فرما کر اسی ماہ شوال ۸ ھ میں طائف کا قصد فرمایا۔ اس مقصد کے لیے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک ہزار فوج کا ہر اَول دستہ روانہ کیا گیا، پھر آپ نے خود طائف کا رُخ فرمایا۔ راستہ میں نخلہ ٔ یمانیہ ، پھر قرن منازل پھر لیہ سے گزرہوا۔ لیہ میں مالک بن عوف کا ایک قلعہ تھا۔ آپ نے اسے منہدم کروادیا۔ پھر سفر جاری رکھتے ہوئے طائف پہنچے اور قلعہ طائف کے قریب خیمہ زن ہو کر اس کا محاصرہ کرلیا۔ محاصرہ نے قدرے طول پکڑا۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ یہ چالیس دن تک جاری رہا۔ اہل سیر میں سے بعض نے اس کی مدت بیس دن بتائی ہے۔ بعض نے دس دن سے زیادہ ، بعض نے اٹھارہ دن اور بعض نے پندرہ دن۔ [1] دورانِ محاصرہ دونوں طرف سے تیر اندازی اور پتھر بازی کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔ بلکہ پہلے پہل جب مسلمانوں نے محاصرہ کیا تو قلعہ کے اندر سے ان پر اس شدت سے تیر اندازی کی گئی کہ معلوم ہوتا تھا ٹڈی دَل چھایا ہوا ہے اس سے متعدد مسلمان زخمی ہوئے۔ بارہ شہید ہوئے۔ اور انہیں اپنا کیمپ اٹھا کر موجودہ مسجد طائف کے پاس لے جانا پڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اہل طائف پر منجنیق نصب کی ، اور متعدد گولے پھینکے ، جس سے قلعہ کی دیوار میں شگاف پڑگیا۔ اور مسلمانو ں کی ایک جماعت دبابہ کے اندر گھس
Flag Counter