Maktaba Wahhabi

898 - 644
مہاجرین کو قریش کی دھمکی: پھر قریش نے مسلمانوں کو کہلا بھیجا : ’’تم مغرور نہ ہونا کہ مکہ سے صاف بچ کرنکل آئے ، ہم یثرب ہی پہنچ کر تمہارا ستیاناس کردیتے ہیں۔‘‘[1] اور یہ محض دھمکی نہ تھی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے مؤکد طریقے پر قریش کی چالوں اور بُرے ارادوں کا علم ہوگیا تھا کہ آپ یا توجاگ کر رات گزارتے تھے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پہرے میں سوتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مدینہ آنے کے بعد ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا :’’ کاش! آج رات میرے صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کوئی صالح آدمی میرے یہاں پہرہ دیتا۔‘‘ ابھی ہم اسی حالت میں تھے کہ ہمیں ہتھیار کی جھنکار سنائی پڑی۔ آپ نے فرمایا : ’’کون ہے ؟‘‘ جواب آیا : ’’سعد بن ابی وقاص ‘‘ فرمایا: کیسے آنا ہوا؟ َ بولے : ’’میرے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خطرے کا اندیشہ ہوا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں پہرہ دینے آگیا۔‘‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دُعا دی، پھر سو گئے۔[2] یہ بھی یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام بعض راتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اور دائمی تھا ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾(۵: ۶۷) (اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا ) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبے سے سر نکالا اور فرمایا : ’’لوگو ! واپس جاؤ اللہ عزّوجل نے مجھے محفوظ کردیا ہے۔‘‘[3] پھر یہ خطرہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تک محدود نہ تھا بلکہ سارے ہی مسلمانوں کو لاحق تھا ، چنانچہ حضرت اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رُفقاء مدینہ تشریف لائے ، اور انصار نے انہیں اپنے یہاں پناہ دی تو سارا عرب اُن کے خلاف متحد ہوگیا۔ چنانچہ یہ لوگ نہ ہتھیار کے بغیر رات گزارتے تھے اور نہ ہتھیار کے بغیر صبح کرتے تھے۔ جنگ کی اجازت: ان پُر خطر حالات میں جو مدینہ میں مسلمانوں کے وجود کے لیے چیلنج بنے ہوئے تھے اور جن سے عیاں تھا کہ قریش کسی
Flag Counter