Maktaba Wahhabi

1035 - 644
کہ آپ اسے اپنے لیے محفوظ رکھیں یا جسے چاہیں دیں۔ چنانچہ آپ نے (مالِ غنیمت کی طرح ) ان اموال کا خُمس (پانچواں حصہ ) نہیں نکالا۔ کیونکہ اسے اللہ نے آپ کو بطور فَیْ دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ دوڑاکر اسے (بزور شمشیر ) فتح نہیں کیا تھا۔ لہٰذا آپ نے اپنے اس اختیار خصوصی کے تحت اس پورے مال کو صرف مہاجرین اولین پر تقسیم فرمایا۔ البتہ دو انصاری صحابہ، یعنی ابودجانہ اور سہل بن حُنیف رضی اللہ عنہما کو ان کے فقر کے سبب اس میں سے کچھ عطافرمایا۔ اس کے علاوہ آپ نے (ایک چھوٹا سا ٹکڑا اپنے لیے محفوظ رکھا جس میں سے آپ )اپنی ازواج مطہرات کا سال بھر کا خرچ نکالتے تھے۔ اور اس کے بعد جو کچھ بچتا تھا اسے جہاد کی تیاری کے لیے ہتھیار اور گھوڑوں کی فراہمی میں صرف فرمادیتے تھے۔ غزوہ بنی نضیر ربیع الاول۴ھ ،اگست ۶۲۵ ء میں پیش آیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس تعلق سے پوری سورۂ حشر نازل فرمائی۔ جس میں یہودکی جلاوطنی کا نقشہ کھینچتے ہوئے منافقین کے طرزِ عمل کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ اور مال ِ فَیْ کے احکام بیان فرماتے ہوئے مہاجرین وانصار کی مدح وستائش کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگی مصالح کے پیش نظر دشمن کے درخت کاٹے جاسکتے ہیں۔ اور ان میں آگ لگائی جاسکتی ہے۔ ایسا کرنا فساد فی الارض نہیں ہے۔ پھر اہلِ ایمان کو تقویٰ کے التزام اور آخرت کی تیاری کی تاکید کی گئی ہے۔ ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد وثنا فرماتے ہوئے اور اپنے اسماء وصفات کوبیان کرتے ہوئے سورۃ ختم فرمادی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس سورۂ (حشر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اسے سورہ ٔ بنی النضیر کہو۔[1] ۶۔ غزوۂ نجد : غزوۂ بنی نضیر میں کسی قربانی کے بغیر مسلمانوں کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی اس سے مدینے میں قائم مسلمانوں کا اقتدار مضبوط ہوگیا۔ اور منافقین پر بددلی چھا گئی۔ اب انہیں کھل کر کچھ کرنے کی جرأت نہیں ہورہی تھی۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان بدوؤں کی خبر لینے کے لیے یکسو ہوگئے جنہوں نے اُحد کے بعد ہی سے مسلمانوں کو سخت مشکلات میں الجھا رکھا تھا۔ اور نہایت ظالمانہ طریقے سے داعیانِ اسلام پر حملے کر کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔ اورا ب ان کی جرأت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ مدینے پر چڑھائی کی سوچ رہے تھے۔
Flag Counter