Maktaba Wahhabi

952 - 644
غلام ہاتھ آیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کردیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیار بنی سلیم میں تین روز قیام فرما کر مدینہ پلٹ آئے۔ یہ غزوہ شوال ۲ ھ میں بدر سے واپسی کے صرف سات دن بعد یا نصف محرم ۳ ھ میں پیش آیا۔ اس غزوے کے دوران سباع رضی اللہ عنہ بن عرفطہ کو اور کہا جاتا ہے کہ ابن ِ ام مکتوم کو مدینے کا انتظام سونپا گیا تھا۔ [1] ۲۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش: جنگ بدر میں شکست کھا کر مشرکین غصے سے بے قابو تھے اور پورا مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہانڈی کی طرح کھول رہا تھا۔ بالآخر مکے کے دوبہادر نوجوان نے طے کیا کہ وہ …اپنی دانست میں…اس اختلاف وشقاق کی بنیاد اور اس ذلت ورسوائی کی جڑ (نعوذ باللہ ) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتمہ کردیں گے۔ چنانچہ جنگ بدر کے کچھ ہی دنوں بعد کا واقعہ ہے کہ عُمیر بن وہب جمحی ۔ جو قریش کے شیطانوں میں سے تھا اور مکے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اذیتیں پہنچا یا کرتا تھا اور اب اس کا بیٹا وہب بن عُمیر جنگ بدر میں گرفتار ہوکر مسلمانوں کی قید میں تھا۔ اس لیے عمیر۔نے ایک دن صفوان بن امیہ کے ساتھ حطیم میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہوئے بدر کے کنویں میں پھینکے جانے والے مقتولوں کا ذکر کیا۔ اس پر صفوان نے کہا :’’اللہ کی قسم! ان کے بعد جینے میں کوئی لطف نہیں۔‘‘ جواب میں عمیر نے کہا :’’اللہ کی قسم! تم سچ کہتے ہو۔ دیکھو اللہ کی قسم! اگر میرے اوپر قرض نہ ہوتا ، جس کی ادائیگی کے لیے میرے پاس کچھ نہیں، اور اہل وعیال نہ ہوتے ، جن کے بارے میں اندیشہ ہے کہ میرے بعد ضائع ہوجائیں گے ، تو میں سوار ہو کر محمد ؐ کے پاس جاتا اور اسے قتل کر ڈالتا ، کیونکہ میرے لیے وہاں جانے کی ایک وجہ موجود ہے۔ میرا بیٹا ان کے ہاں قید ہے۔ ‘‘ صفوان نے اس صورت حال کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا :’’اچھا چلو ! تمہارا قرض میرے ذِمے ہے میں اسے تمہاری جانب سے ادا کردوں گا ، اور تمہارے اہل وعیال میرے اہل وعیال ہیں۔ جب تک وہ موجود رہیں گے میں ان کی دیکھ بھال کرتا رہوں گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے پاس کوئی چیز موجود ہو اوران کو نہ ملے۔‘‘ عمیر نے کہا :اچھا تو اب میرے اور اپنے معاملے کو صیغہ ٔ راز میں رکھنا۔ صفوان نے
Flag Counter