Maktaba Wahhabi

1017 - 644
کر رکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ رات بھر مدینے کے راستوں اور گزرگاہوں پر پہرہ دیتے رہے۔ اور اپنے سپہ سالارِ اعظم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی حفاظت پر تعینات رہے کیونکہ انہیں ہر طرف سے خدشات لاحق تھے۔ غزوۂ حمراء الاسد: ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتے ہوئے گزاری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ اگر مشرکین نے سوچا کہ میدانِ جنگ میں اپنا پلہ بھاری رہتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو انہیں يقيناً ندامت ہوگی۔ اور وہ راستے سے پلٹ کر مدینے پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ اس لیے آپ نے فیصلہ کیا کہ بہر حال مکی لشکر کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ اہل ِ سیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معرکہ احد کے دوسرے دن، یعنی یک شنبہ ۸ /شوال ۳ھ کو علی الصباح اعلان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے کے لیے چلنا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی آدمی چل سکتا ہے جو معرکۂ احد میں موجود تھا۔ تاہم عبداللہ بن اُبی نے اجازت چاہی کہ آپ کا ہمرکاب ہو۔ مگر آپ نے اجازت نہ دی۔ ادھر جتنے مسلمان تھے اگرچہ زخموں سے چور ، غم سے نڈھال ، اور اندیشہ وخوف سے دوچار تھے ، لیکن سب نے بلا تردد سرِ اطاعت خم کردیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بھی اجازت چاہی جو جنگ اُحد میں شریک نہ تھے۔ حاضر خدمت ہوکر عرض پرداز ہوئے۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چاہتاہوں کہ آپ جس کسی جنگ میں تشریف لے جائیں میں بھی حاضر خدمت رہوں۔اور چونکہ (اس جنگ میں ) میرے والد نے مجھے اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر روک دیا تھا، لہٰذا آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں اس پر آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ پروگرام کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے۔ اور مدینے سے آٹھ میل دورحمراء الاسد پہنچ کر خیمہ زن ہوئے۔ اثناء قیام میں معبد بن ابی معبد خزاعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوا ۔ اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شرک ہی پر قائم تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیر خواہ تھا ۔ کیونکہ خزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان حلف (یعنی دوستی وتعاون کا عہد ) تھا۔ بہر کیف اس نے کہا: اے محمد ! آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جو زک پہنچی ہے وہ واللہ ہم پر سخت گراں گزری ہے۔ ہماری آرزو تھی کہ اللہ آپ کو بعافیت رکھتا ۔ اس اظہارِ ہمدردی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ابو سفیان کے پاس جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کرے۔
Flag Counter