Maktaba Wahhabi

93 - 589
نے کیا۔ وہ پڑھتے اور میں سنتا۔ ان کی تالیفات عربی و فارسی و اردو میں نے ان کی زبان سے سنی ہیں اور پھر دوسروں سے اس کا مقابلہ کیا ہے اور تصحیح وغیرہ کی ہے۔ ان کے سارے مسودے میری نظر سے گزرے ہیں ۔ اکثر تو تین بار اور بعض دوبار اور بعض ایک بار۔ منصف مزاج ایسے تھے کہ عبارت پڑھنے میں اگر کہیں سہو ہوگیا تو ان کو ٹوکا، پس اس کو مانا اور صحیح پڑھا۔ گو کتنے ہی آدمی بیٹھے ہوں ، میں نے ان کی بعض کتب کے مسودات جلد بندھوا کر تبرکاً اپنے پاس رکھ چھوڑے ہیں ۔ اگر سچ پوچھو تو ان کا گوشت پوست سب علم تھا۔ ان کی طبعی بات سوائے ذکر و فکر کے اور کچھ نہ تھی۔ مجھے براہِ محبت تالیف پر بہت آمادہ کرتے اور رغبت دلاتے تھے۔ چنانچہ انہی کے زور دینے سے کتاب ’’المبتکر في بیان المؤنث والمذکر‘‘ تالیف کرنا شروع کی۔ جب تمام ہوئی تو خدمت میں پیش کی۔ بہت خوش ہوئے اور پسند فرمائی۔ آپ کی برکت سے عالم میں مقبول ہوئی۔ چنانچہ صاحب ’’اکتفاء القنوع‘‘ نے بھی اُس کا ذکر کیا ہے اور یوں لکھا ہے: ’’أبو الحسن ذوالفقار أحمد، لہ مبتکر في بیان ما یتعلق بالمؤنث والمذکر، طبع في بھوپال الھند ۱۲۹۷ھ لا یقتصر ھٰذا المبتکر علی المؤنث والمذکر، بل ھو مصنف نفیس في اللغۃ مع کثیر من الشواھد والآداب، منہ یظھر للقاریٔ حسن مساعي أھل الھند في خدمۃ معرفۃ اللغۃ العربیۃ‘‘ انتھی اس کتاب کو پچاس روپیہ ماہوار کے بدلے خوشنویس نے آٹھ ماہ میں لکھا۔ پانچ سو نسخے اس کے طبع ہوئے۔ شیخنا المرحوم کی کتب کے ساتھ مصر، روم، یمن اور مکہ معظمہ وغیرہ کو اکثر نسخے گئے۔ باقی نسخے یہاں تقسیم ہوئے۔ اب اس کا نسخہ کم یاب ہے۔ پھر ’’محاسن المحسنین في حکایات الصالحین في ترجمۃ روضۃ الریاحین‘‘ لکھی۔ پھر ’’شرب المدام السلسال علی ذکر سلامان وابسال‘‘ پھر ’’طی الفراسخ إلی منازل البرازخ‘‘ پھر ’’تشنیف الأسماع بسلوان المطاع‘‘ پھر ’’الروض الممطور في ذکر علماء شرح الصدور‘‘ پھر ’’حدائق الزھور في رجال شرح الصدور‘‘ بزبان عربی، یہ طبع نہیں ہوا۔ پھر ’’القول المیسور في رجال شرح الصدور‘‘ نام میں رسالہ مذکور کی تلخیص
Flag Counter