Maktaba Wahhabi

82 - 589
کے اس انعام کا ذکر کیا ہے، جو علم دین کے متعلق ان کو عطا کیا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا ہے کہ چاروں اماموں کے فقہی مسائل اور ان کے استخراج و استنباط کے اصول و قواعد، آئین اور ضابطے؛ سب پر ان کو عبور حاصل ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ کون مجتہد کس درجے کا فقیہ ہے؟ کس کا اجتہاد کتاب و سنت کے موافق ہے اور کس کا اس کے خلاف؟ اپنے علم و فہم کے اس رسوخ اور کمال کا اظہار کر لینے کے بعد تب انھوں نے لکھا ہے: ’’ہر چند باقتفائے نیاکان بزرگ و دانشمندان سترگ در ظاہر انتساب ۔۔۔‘‘ یعنی جب اﷲ تعالیٰ نے عقل و فہم کے کمال کی منزل تک پہنچا دیا ہے اور فقہ و اصولِ فقہ کا علم بھی وافر عطا فرمایا ہے۔ ایسا علم جو چاروں اماموں کے اصول و فروع پر گونا گوں طریقے سے حاوی ہے۔ مجتہدوں کے پایۂ اجتہاد اور ان کے اقوال و آرا کے خطا و صواب کی معرفت کا ملکہ بھی حاصل ہو تو ایسی صورت میں کسی کا مقلد بن کر، ہر مسئلے میں اس کی رائے کو بلا دلیل مان لینا اور خود کو اس کا پابند بنا کر رکھنا، یہ میرا کام نہیں ہے۔ اس لیے ’’ہر چند‘‘ اپنے بزرگوں کی پیروی میں لوگوں کا انتساب ظاہر میں (رسمی طور پر) حنفی مذہب کی طرف معروف ہے، لیکن میرے نزدیک اس شہرت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں نے اتباعِ سنت کی راہ اختیار کی ہے۔ یا نواب صاحب کا مقصد یہ ہے کہ ’’ہر چند‘‘ ظاہر میں میرا انتساب حنفی مذہب کی طرف معروف ہے، لیکن اس ظاہری انتساب کا مطلب مقلد ہونا نہیں ہے، کیوں کہ یہ تو مجھ جیسے شخص کے لیے ایک عیب کی بات ہے۔ میں نے اپنے قول و عمل اور گفتار و کردار کو تحقیق و بصیرت کی روشنی میں سنت کی پیروی سے آراستہ کیا ہے۔ اہلِ علم سمجھ سکتے ہیں کہ نواب صاحب کی محولہ بالا عبارت میں لفظ ’’ہرچند‘‘ کو اپنے سیاق و سباق کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے، اس کے بعد وہ خود فیصلہ کریں کہ کیا ہماری یہ شکایت بے جا ہے کہ مصنف ’’سیرت والا جاہی‘‘ نے اس عبارت کا ایک بڑا اہم لفظ نقل نہیں کیا ہے؟ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس عبارت سے نواب صاحب کا ’’حنفی‘‘ (بہ معنی مقلد امام ابو حنیفہ) ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا، بلکہ اس کے برخلاف اسی عبارت سے ان کا محقق (غیر مقلد) متبع سنت ہونا واضح طور پر ثابت ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ اگر ’’انتساب معروف‘‘ سے اتباعِ سنت کا حق ادا ہوجاتا تھا تو پھر اس استدراک کے ذریعے کس توہم کو دفع کیا گیا ہے کہ ’’لیکن ہموارۂ گفتار و کردار را باتباع سنت
Flag Counter