Maktaba Wahhabi

77 - 589
’’وھذا إمامنا وشیخنا الأستاذ الإمام الملک السید نواب صدیق حسن خان البھوفالي ما أرفق وبلہ! تصانیفہ الغالیۃ الثمینۃ انتشرت شرقا وغربا واستفاد منہ العامۃ والعلمائ‘‘[1] ’’یہ ہمارے امام، شیخ، استاذ، امام، ملک، سید نواب صدیق حسن خان ہیں ، جو بحر بے کنار تھے۔ ان کی بیش قیمت بلند پایۂ تصانیف مشرق و مغرب میں پھیل گئیں اور عوام و علما نے اس سے استفادہ کیا۔‘‘ نواب صاحب رحمہ اللہ کے متعلق اہل حدیث علما و شیوخ کی آرا و اقوال سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر نواب صاحب رحمہ اللہ کی مولفات ہی کو اس مقصد کے لیے دیکھ لیا جائے تو ہمیں بعض الناس کے عائد کردہ اس اتہام کی حقیقت بہ خوبی معلوم ہوجاتی ہیں ۔[2] اسی طرح نواب صاحب رحمہ اللہ پر ایک دوسرا اعتراض یہ کیا گیا کہ وہ دوسرے علما کی کتابوں ہی کو اپنے نام سے شائع کرتے ہیں اور انھیں میں تقدیم و تاخیر کرنے کے بعد ان پر اپنا نام لکھ لیتے ہیں ۔ یہ اتہام دراصل ایک عیسائی مشترق کانیلس ایڈورڈ کی اختراع ہے، جسے سن کر نواب صاحب رحمہ اللہ کے حاسدین نے اسے خوب ترقی دی اور کئی ایک حقیقت سے ناواقف یا عداوت و نفرت کے مارے ہوئے اس الزام کو آج بھی دہراتے رہتے ہیں ، حالاں کہ اس بارے میں بھی اگر معاصر علما اور دیگر اصحابِ علم و فضل کی آرا اور نواب صاحب رحمہ اللہ کی مولفات کو دیکھا جائے تو اس اتہام کی قلعی خود بہ خود کھل جاتی ہے۔ علامہ عبد الحی الکتانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وبالجملۃ فھو من کبار من لھم الید الطولي في إحیاء کثیر من کتب الحدیث وعلومہ بالھند وغیرہ ۔جزاہ اللّٰه خیراً۔ وقد عد صاحب عون المعبود علی سنن أبي داود، المترجم لہ أحد المجددین علیٰ رأس المائۃ الرابعۃ عشر، وما لبعض المسیحیین في کتاب لہ اسمہ ’’اکتفاء القنوع بما ھو مطبوع‘‘ من أن المترجم کان عامیاً، وتزوج بملکۃ بوھبال، فعند ما
Flag Counter