Maktaba Wahhabi

67 - 589
سید ذوالفقار احمد نقوی بھوپالی رحمہ اللہ کی زبانی سنیے۔ سید ذوالفقار احمد نقوی رحمہ اللہ بھوپال کے ممتاز عالم اور وہاں کے مجلسِ علما کے رکن اعظم تھے۔ ان کا تذکرہ میں اپنی کتاب ’’برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن‘‘ میں کر چکا ہوں ۔ علماے برصغیر کے حالات کے سلسلے میں ان کی ایک کتاب کا نام ’’قضاء الأرب من ذکر علماء النحو والأدب‘‘ ہے۔ یہ کتاب اردو زبان میں ہے اور کتبِ حوالہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ انھوں نے نواب صاحب رحمہ اللہ کے آخری ایام اور وفات سے متعلق اس کتاب میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے، وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ نواب صاحب رحمہ اللہ نے ۱۷؍ فروری ۱۸۹۰ء کو وفات پائی اور سید ذوالفقار احمد نقوی رحمہ اللہ ان کی وفات سے ۳۱ سال سات مہینے تین دن بعد ۲۴؍ ستمبر ۱۹۲۱ء کو فوت ہوئے۔ اب سید ذوالفقار احمد نقوی رحمہ اللہ کی تحریر ملاحظہ ہو: ’’شیخنا المرحوم کی آخری تالیف کتاب ’’مقالات الاحسان‘‘ ہے۔ یہ کتاب ترجمہ ہے فتوح الغیب کا، جو سیدنا و مولانا حضرت سید عبد القادر گیلانی رضی اللہ عنہ کی تالیف ہے۔ جب اس کا طبع ہونا شروع ہوا تو میں نے اور انھوں نے اس کا مقابلہ کیا۔ جب صحت نامہ کا وقت آیا تو وہ بیمار تھے۔ میں نے اور ایک اور شخص نے اس کا مقابلہ ان کے روبرو کیا۔ مرضِ استسقا ہوگیا تھا۔ نہایت ایذا ہوئی، مگر بڑے مستقل مزاج تھے۔ وفات کے وقت تک استقلال رہا۔ ہراس اور بے صبری کا کلمہ ہرگز زبان سے نہیں نکلا۔ ایامِ بیماری میں شب کو میں ان کے پاس رہتا تھا۔ رات کو نیند نہیں آتی تھی اور نہ لیٹا جاتا تھا۔ پلنگ پر قبلہ رخ بیٹھے رہتے۔ سامنے تکیے رکھ لیتے تھے، ان پر سر رکھ لیا، کبھی اٹھا لیا۔ اسی طرح ساری رات بسر ہوتی تھی۔ اکثر یا ارحم الراحمین کہتے تھے۔ بیماری کی اتنی شدت کہ لکھنے کی طاقت نہیں ، مگر علم کا شوق وہی۔ مجھ سے کہا: بھائی تم آخر اور جگہ بیٹھ کر لکھتے ہو، ہمارے سامنے ہی لکھا کرو۔ میں اس وقت ’’مرأۃ النسواں ‘‘ لکھتا تھا۔ پس میں نے ان کے روبرو لکھنا شروع کیا۔ ظہر سے عصر تک ان کے کمرے میں لکھتا، پھر گھر جاتا، عشا کے بعد پھر آجاتا تھا۔ اس اثنا میں باتیں بھی کرتے جاتے تھے۔ کئی دنوں سے اسی طرح ہوتا تھا۔ کبھی فرماتے: بھائی آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک تو مثل دوا کے کہ جب بیمار ہوں تو ان کی حاجت ہو اور ایک مثل غذا کے کہ کسی حالت میں اس سے چارہ نہیں ہے۔ تیری مثال یہی ہے۔
Flag Counter