Maktaba Wahhabi

587 - 589
تقلید کی ممانعت کے سلسلے میں ائمہ اربعہ کے اقوال نقل کیے اور ’’أدب الطلب‘‘ اور ’’إرشاد الفحول‘‘ میں اچھی طرح تقلید کا رد کیا ہے۔ ہمارے فرزند عزیز کا رسالہ ’’اقلید‘‘ بھی ردِ تقلید پر مشتمل ہے۔ تقلید کی ممانعت پر اگر اجماع نہ بھی ہو، پھر بھی یہ جمہور کا مذہب تو ضرور ہی ہے۔ مُردوں کی تقلید کے عدمِ جواز پر اجماع ہے۔ یہ اجماع جمہور کے مذہب کا موید ہے۔ اگر دلیل میسر نہ ہو تو مجتہد اپنی رائے پر چل سکتا ہے، لیکن دوسروں کو اس رائے پر چلنا درست نہیں ۔ اس پر اہلِ علم کا اتفاق ہے، اس اجماع سے تقلید کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ جو لوگ اجماع کو حجت سمجھتے ہیں ، یہ ان کے لیے حجت قاطعہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگ ہٹ دھرمی اور ضد میں آکر یہ بات نہ مانیں اور تقلید کو واجب اور مستحب کہتے جائیں ۔ تقلید عرف عام میں نام ہے کسی شخص کی بات کو بلا دلیل مان لینے کا، خواہ وہ بات کسی عالم کی ہو یا امام فقیہ اور بادشاہ کی یا کسی جاہل پیر فقیر کی ہو، مثلاً کتبِ فقہ و فتاویٰ اور رائے میں لاکھوں مسئلے ایسے ہیں ، جن کے پیچھے کتاب و سنت کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ قرآن و حدیث کی طرف رجوع کیے بغیر ان کا ماننا، ان کے مطابق فتویٰ دینا اور ان کے مطابق مسئلہ بتانا بد بختانہ تقلید ہے۔ دنیا میں فقہ الحدیث کی کتابیں کثرت سے موجود ہیں ، جو عربی و فارسی اور اردو ہر زبان میں دستیاب ہیں ۔ ان میں ہر مسئلہ دلیل کے ساتھ لکھا ہوا ہے، رائے اور قیاس کا ان میں با لکل دخل نہیں ہے۔ ان سے مستفید ہونا اور ان کے مطابق عمل کرنا کافی ہے۔ منتقی الاخبار، بلوغ المرام، نہج مقبول، بنیان مرصوص، عرف الجادی، فتح المغیث اور بدور الاہلہ وغیرہ احکام، عبادات اور معاملات کے بیان کے لیے کافی ہیں ۔ قرآن و سنت کے عالم سے جاہل کا یہ پوچھنا کہ فلاں مسئلے کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کا کیا حکم ہے اور اس کا یہ بتلا دینا کہ قرآن و حدیث میں یوں آیا ہے، تقلید میں داخل نہیں ہے۔ اس کو روایت کہتے ہیں ، اس کا نام رائے نہیں ہے۔ ممانعت رائے پر عمل کرنے کی آئی ہے، عمل بالروایہ کی ممانعت نہیں ہے۔ قرون ثلاثہ کے بعد مذاہب کی کتابوں میں ایک آفت یہ لگ گئی ہے کہ علما مذاہب ائمہ کے قواعد پر ہزاروں لاکھوں مسئلے اپنی رائے و قیاس سے لکھ گئے ہیں ۔ جب کتاب و سنت سے ان کا موازنہ کیا جاتا ہے تو ہزار میں دس بیس مسئلوں میں بھی دلیل نہیں ملتی۔ یہ مسائل تو ایسے ہیں کہ اگر آج امامِ اعظم زندہ ہوتے اور ان سے فتویٰ لیا جاتا تو وہ ہر گز اس طرح کا فتویٰ نہ بتاتے۔ اگر ان کی طرف ان مسائل کو منسوب کیا جاتا تو ان پر سخت نکیر کرتے اور ان سے اپنی لا علمی اور بے زاری کا
Flag Counter