Maktaba Wahhabi

573 - 589
(( شَفَاعَتِيْ لِأَھْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِيْ )) [1] [میری شفاعت میری امت کے اہل کبائر کے لیے ہو گی] ایک حدیث میں ہے: (( لٰکِنَّھَا لِلْمُذْنِبِیْنَ الْمُتَلَوِّثِیْنَ الْخَطَّائِیْنَ )) [2] [لیکن وہ شفاعت خطا کاروں اور گناہ گاروں کے لیے ہو گی] نیز فرمایا: (( إِنَّ أَسْعَدَ النَّاسِ بِشَفَاعَتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ خَالِصاً مِنْ قِبَلِ نَفْسِہٖ )) [3] (رواہ الصابوني بسندہ) [میری شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت یاب وہ شخص ہو گا جس نے خلوصِ دل سے لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کیا ہے] رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کا اعتقاد رکھنا ایمان میں داخل ہے۔ احادیث کے الفاظ مطلق ہیں ، اس لیے کسی شخصی تعین کا سوال ہے نہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ ہماری شفاعت ضرور ہو گی۔ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت اللہ کی اجازت سے ہو گی۔ جب شفاعت اذنِ الٰہی پر موقوف ہے تو کسی کو کیا معلوم کہ اللہ اس کے لیے شفاعت کی اجازت دیں گے یا نہیں ؟ شفاعت کا انکار ممکن نہیں ، اس کا انکار قرآن و حدیث کا انکار ہے۔ شفاعت کی آس میں معصیت کرنا حماقت اور جہالت ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے: (( فَیُحَدُّ لِيْ حَدّاً )) [4] یعنی شفاعت کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی کہ فلاں فلاں قسم کے لوگوں کی شفاعت کرو۔ یہ شفاعت انھیں اہلِ کبائر کی ہو گی جنھوں نے شرک و بدعت نہیں کیا ہے۔ جو گورپرست اور پیر پرست ہیں ، رات دن سیئات اور بدعات میں ڈوبے رہتے ہیں ، ان کی شفاعت نہ ہو گی، کیونکہ مشرک شفاعت یا بے شفاعت کسی طرح بخشا نہ جائے گا۔ اکثر لوگ اپنے آپ کو موحد کہتے ہیں ، لیکن کام شرک والا کرتے ہیں ، کیونکہ شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ باریک ہے۔[5]
Flag Counter