Maktaba Wahhabi

542 - 589
کے معجزات رونما ہوئے، لیکن ختم ہو گئے۔ ہر پیغمبر کو ایک دو قسم کا معجزہ دیا گیا تھا، لیکن خاتم النبیین، شفیع المذنبین سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کو ہر قسم کا معجزہ عنایت ہوا۔ سارے انبیا میں جتنے کمالات جدا جدا تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات واحد میں سبھی اکھٹے کر دیے گئے اور مزید دوسرے کمالات بھی ملے۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری [جو خوبیاں ان سب میں تھیں ، وہ آپ اکیلے میں اکٹھی ہو گئیں ] بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر انبیا و رسل، ملائکہ اور اولیا اگرچہ اشرف مخلوقات ہیں ، لیکن ساری مخلوقات کی طرح انھیں کوئی قدرت حاصل نہیں ۔ وہ صرف اتنا ہی جانتے اور اس کی قدرت رکھتے ہیں ، جو انھیں اللہ کی طرف سے مل جائے۔ جس طرح تمام مسلمان اللہ کی ذات و صفات پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی طرح ان کا بھی ایمان تھا۔ انھیں ذات و صفات الٰہیہ کے ادراکِ حقیقت میں اپنے عجزو قصور کا اعتراف تھا۔ عبدیت کے تقاضے اور حقوق وہ شکر الٰہی سے ادا کرتے تھے۔ اس لیے صفاتِ الٰہیہ میں اللہ کے خاص بندوں کو شریک کرنا یا اس کی عبادت میں انھیں شریک کرنا کفر ہے۔ غیر انبیا کو صفاتِ انبیا میں شریک کرنا بھی ممنوع ہے۔ یہود نے انبیا کا انکار کیا تو کافر ٹھہرے۔ نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانا، عرب نے ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں ٹھہرایا اور فرشتوں کے لیے علم غیب تسلیم کیا تو کفر میں مبتلا ہو گئے۔ نیچریہ نے ملائکہ و شیاطین کے وجود کا انکار کیا تو کافر ہو گئے۔ مقصودیہ ہے کہ انبیا کی متابعت ہر بات میں ہونی چاہیے۔ وہ جس کی خبر دیں ، اس پر ایمان لانا چاہیے اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیں ، انھیں کرنا چاہیے اور جن باتوں سے منع فرمایا ہے، ان سے بچنا لازم ہے۔ قاضی ثناء اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ما لا بد منہ‘‘ میں فرمایا ہے: ’’کسی بھی شخص کا قول و فعل اگر پیغمبر کے قول و فعل سے بال برابر بھی انحراف کرے تو اسے ٹھکرا دینا چاہیے۔‘‘[1] قاضی صاحب کے اس عظیم جملے سے تقلید کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ قاضی صاحب حنفی فقیہ تھے۔ ان کے قاعدے کے مطابق ان کی یہ بات حنفیہ کے خلاف حجت ہے۔ اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے مشکات کے ترجمے میں بدعت حسنہ کی جڑ کاٹ دی ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ایک ادنا سنت بھی
Flag Counter