Maktaba Wahhabi

516 - 589
[کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو بے کار پیدا کیا ہے؟] ’’اس کی مصلحت کا قاعدہ کلیہ ہے۔ اس کی ذات پاک پر کسی کا کوئی حق واجب ہے نہ وہ کسی مصلحت خاص کا پابند ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی کافر فقیر معذب فی الدارین کو پیدا نہ کرتا، کیوں کہ اس کے لیے عدم، وجود سے صالح تر ہے۔ اللہ کے لیے کوئی امر قبیح نہیں ہوتا، بلکہ جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے وہ سب حسن ہے۔ حدیث میں آیا ہے: (( اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِيْ یَدَیْکَ وَالشَّرُّ لَیْسَ إِلَیْکَ )) [1] [تمام بھلائی تیرے دونوں ہاتھوں میں ہے اور برائی کی تیری طرف نسبت نہیں ہو سکتی] ’’اس کے فعل و حکم میں جورو ظلم نہیں ہو سکتا۔ اس نے ہر خلق و امر میں حکمت کی رعایت کی ہے۔ وہ حکمت کی رعایت محض اس لیے نہیں کرتا کہ وہ اپنی ذات و صفات کو کامل کرنا چاہتا ہے یا اس سے کوئی حاجت و غرض وابستہ ہے اور حکمت کی رعایت نہ کرنے میں اس کے ساتھ ضعف و قبح وابستہ ہو جائے گا، بلکہ حکمت کی رعایت اس بنا پر ہوتی ہے کہ اس میں انسانوں ، ملکوں اور مخلوقات کی بھلائی اور خیر پایا جاتا ہے اور مشیت ایزدی سے سب ہی کو وہ خیر ملتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں ہے۔ عقل کی بساط کیا کہ کسی چیز کے حسن و قبح کو معلوم کر سکے یا ثواب و عقاب کا حکم لگا سکے۔ تمام امور میں حسن و قبح اللہ کے حکم وقضا سے ہوتا ہے۔ لوگوں کو جو ذمے داریاں سونپی گئی ہیں ، اتفاقاً اس کی مصلحت کبھی عقل میں آ جاتی ہے اور ثواب وعقاب کی مناسبت معلوم ہو جاتی ہے۔ کبھی وہ مصلحت فرمانِ رسالت سے معلوم ہو جاتی ہے اور کبھی بالکل نہیں معلوم ہوتی۔ ذاتِ واحد میں تمام صفات ایک ہی ہیں ، ان میں تکرار و تعدد کا دخل نہیں ہے اور تجدد و تعلق کے مطابق وہ لا متناہی ہیں ، بلکہ خود یہ تعلق و تاثیر بھی متعدد نہیں ہے۔ تعدد ہے تو موثرات و متعلقات میں ہے۔ تعلق اور تا ثیر کے احکام اپنے نتائج کے اعتبار سے متفاوت ہوتے ہیں ۔ یہ تفاوت موثرات اور متعلقات کے مطابق ہوتے ہیں ۔ اللہ کی ذات حدوث، تغیر اور تجدد سے پاک ہے۔‘‘[2] ٭٭٭
Flag Counter