Maktaba Wahhabi

514 - 589
ہے نہ جسم، نہ جوہر نہ مصور، نہ محدود نہ معدود، نہ متبعض نہ متجزی، نہ متناہی نہ موصوف بماہیت، نہ موصوف بہ کیفیت، نہ وہ کسی جگہ متمکن ہے نہ اس پر کوئی زمانہ جاری ہو سکتا ہے، یہ بالکل غلط اور فلاسفہ حمقا کی عبارات و الفاظ سے ماخوذ ہے۔ اگر ان الفاظ کے معانی صحیح تسلیم کر لیے جائیں تو پھر بھی انھیں استعمال کرنا درست نہیں ۔ قرآن و حدیث کے الفاظ و معانی کافی شافی ہیں ۔ کوئی ضرورت نہیں کہ مسلمان ان وحشیانہ الفاظ کو استعمال کریں ۔ کتاب و سنت میں صفات الٰہیہ کے متعلق آمدہ تفصیلات اور الفاظ اس کی وضاحت کے لیے کافی ہیں ۔ اللہ و رسول کا معجز نما کلام اور حکماے یونان، فلاسفہ نافرجام کا کلامِ ضلالت دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ملتِ اسلام کے وہ ائمہ کلام اور متکلمین، جن کو اللہ نے ہدایت دی تھی، وہ کہہ گئے ہیں : ’’علیک بدین الأعراب و العجائز والصبیان‘‘[1] [تم دیہاتیوں ، بوڑھیوں اور بچوں کے دین پر جم جاؤ] امام الحرمین جوینی، امام رازی اور امام غزالی رحمہم اللہ وغیرہم نے آخر عمر میں اس بات پر ندامت و خجالت ظاہر کی کہ ہم نے علم کلام میں بے فائدہ عمر برباد کر دی۔ اس علم سے معرفت الٰہی ہر گز حاصل نہیں ہو سکتی، اس سے حیرت اور شکوک و شبہات کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ حق و سچائی صرف قرآن و حدیث کی واضح اور سیدھی سادھی باتوں میں ہے۔ صفاتِ الٰہیہ کی معرفت صرف قرآن وحدیث سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جس نے ان کی بات چھوڑ کر دوسرے کی سنی، وہ گمراہ ہوا اور معطل عابدِ عدم اور ممثل عابدِ صنم ہو گیا۔ معطل اندھا ہے اور ممثل بے نور۔ اللہ کا دین غلو و اباحیت اور افراط و تفریط کے درمیان ہے۔ سچ صرف اتنی بات ہے کہ صفات کا انکار نہ کیا جائے، البتہ ان کی کیفیت کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔ سلف کا مسلک اثبات بلا تشبیہ اور تنزیہ بلا تعطیل ہے۔ اسی اعتقاد پر سارے ائمہ اسلام اور مجتہدین کرام گزرے ہیں ، جیسے مالک، ابو حنیفہ، شافعی، ثوری، اوزاعی، ابن مبارک، امام احمد اور ابن راہویہ وغیرہم۔ یہی اعتقاد مشائخ امجاد کا بھی تھا، جیسے فضیل بن عیاض، ابو سلیمان الدارانی اور سہل التستری وغیرہم۔ ان ائمہ کا اصولِ دین میں باہم کوئی اختلاف نہ تھا۔ یہی عقیدہ سارے محدثین و محسنین کا
Flag Counter