کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں غور کرنا ہی بے جا ہے۔ لفظ اور معنی سب اللہ کی طرف سے ہیں ۔ کلامِ الٰہی ایک صفت ہے، اس کلام میں اللہ نے امر و نہی کی ہے، احوالِ گذشتہ اور حال و استقبال کی اطلاع دی ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اس صفتِ کلام کی تفصیل ہیں ۔ اس کلام کا ثبوت خود کلام الٰہی سے ہے۔ فرمایا:
﴿ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا﴾ [النساء: ۱۶۴] [اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا]
حدیث میں ہے:
(( مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَ سَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) [1]
[تم میں ہر فرد سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام کرے گا]
اہلِ کلام نے اگرچہ بڑی شد و مد سے اس بات کا انکار کیا ہے کہ اللہ کا کلام من جملہ حروف و اصوات ہو، لیکن علماے اہلِ حدیث نے کلام الٰہی کے لیے حرف و صوت تسلیم کیا ہے۔ ان کی دلیل ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ہے کہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا، اس کے لیے دس نیکیاں ہیں ۔‘‘[2]
دوسری روایت میں ہے:
’’میں نہیں کہتا کہ ’’الم‘‘ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔‘‘[3]
ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تلاوت حرف بہ حرف واضح ہوتی تھی۔‘‘ [4]
اس طرح کی اور حدیثیں ہیں جن میں حروف کا ذکر آیا ہے۔ صوت کا ذکر عبداللہ بن انیس کی طویل حدیث میں حشر کے ذکر میں آیا ہے:
’’اللہ اہل محشر کو ایسی آواز سے پکارے گا جس کو دور والا ویسا ہی سنے گا جیسے نزدیک والا سنتا ہے۔‘‘[5]
|