Maktaba Wahhabi

49 - 589
بانی سردار دوست محمد خاں کا پڑپوتا تھا، جسے کسی وجہ سے ریاست بدر کر دیا گیا تھا۔ اس نے ایسی حکمت عملی سے کام لیا کہ تھوڑے عرصے میں نہ صرف تمام اندرونی اور بیرونی سازشوں کا خاتمہ کر دیا، بلکہ ریاست میں نئی فتوحات کا آغاز ہوگیا اور اس کی حدود بڑھنے لگیں ۔ نواب حیات محمد خاں کا بیٹا غوث محمد خاں ولی عہد تھا۔ اس نے وزیر محمد خاں کے خلاف سازشیں شروع کر دیں ، لیکن وزیر محمد خاں نے تدبر اور صبر سے کام لیا اور ریاست کی ترقی میں مصروف رہا۔ اس کے عہد میں ریاست نے واقعی ارتقا کی بہت سی منزلیں طے کیں ۔ وزیر محمد خاں دراصل والیِ ریاست نہ تھا، لیکن ریاست کی طرف سے اسے وزیر الدولہ کا خطاب ملا تھا اور اس نے اپنی کوششوں سے ریاست کو اِدھر اُدھر کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچایا تھا۔ حیات محمد خاں جو گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہا تھا، ۱۸۰۸ء میں وفات پا گیا اور اس کے بیٹے غوث محمد خاں نے وزیر محمد خاں کو معزول کر کے ریاست کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ وزیر محمد خاں کے اختیارات کلی طور سے ختم کرنا چاہتا تھا، اس کے لیے اس نے مرہٹوں کی مدد حاصل کی۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر وزیر محمد خاں گنور کے قلعے میں چھپ گیا۔ کچھ عرصے کے بعد مرہٹہ فوج واپس چلی گئی تو وزیر محمد خاں پھر بھوپال آگیا اور مرہٹوں کی جو تھوڑی بہت فوج بھوپال کی حدود میں موجود تھی، اسے بھگا دیا اور غوث محمد خاں کو گرفتار کر لیا۔ مرہٹے غوث محمد خاں کی حمایت میں دوبارہ میدان میں آئے تو وزیر محمد خاں نے مقابلہ کر کے انھیں شکست دی اور ریاست پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا۔ ۱۸۱۵ء میں نواب وزیر محمد خاں کا انتقال ہوگیا۔ اب بھوپال کے عوام کی مرضی اور حمایت سے وزیر محمد خاں کے بیٹے نظر محمد خاں کو بھوپال کا نواب بنایا گیا۔ نظر محمد خاں اپنے باپ کی رفاقت و تربیت میں ریاستی حالات کے مختلف مراحل سے گزر چکا تھا اور بڑا زیرک اور مدبر شخص تھا۔ اس نے اپنے اور اپنے باپ کے حریف نواب غوث محمد خاں کی بیٹی گوہر بیگم قدسیہ سے شادی کر لی، جس کی وجہ سے تمام باہمی جھگڑے ختم ہوگئے۔ اس کے بعد ۱۸۱۸ء میں نواب نظر محمد خاں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمایندے یعنی گورنر جنرل سے دوستانہ طرز کا معاہدہ کر لیا، جس کی رو سے ریاست بھوپال کی حفاظت کی ذمہ داری کمپنی نے لے لی اور امن و امان کی فضا پیداہوگئی۔
Flag Counter