Maktaba Wahhabi

482 - 589
رہے گا۔ عقائد و اعمال میں ان کے اندر ایسے اختلافات رونما نہیں ہو سکتے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہوں ۔ یہ وہی گروہ ہے جس کا ذکر اوپر گزرا، یعنی علماے حدیث، اصحاب الحدیث یا محدثین کا گروہ۔ اس گروہ کے تمام علما عقیدہ و عمل میں متفق اللفظ والمعنی چلے آئے ہیں ۔ اگر کسی سے کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کر لی گئی ہے۔ جس عالم کی بات قرآن و حدیث کے موافق ہو، اسے وہ قبول کرتے ہیں اور جو قرآن و حدیث کے نص کے خلاف ہو، اسے نہیں مانتے۔ ان کے قبول و عدم قبول کا معیار ہے: (( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ أَصْحَابِيْ ))[1] [جس پر میں (رسول) ہوں اور میرے صحابہ ہیں ] نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَبَشِّرْ عِبَادِ*الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ﴾ [الزمر: ۸۱] [میرے ان بندوں کو بشارت دے دو جو بات سنتے ہیں پھر اچھی بات کو مانتے ہیں ] قرآن و حدیث میں انہی لوگوں کی فضیلت و تعریف مذکور ہے۔ ان کے سوا اسلام میں جو دیگر فرقے ہیں ، وہ سب کے سب اہلِ بدعت ہیں ، خواہ ان کی بدعت ہلکی ہو یا بھاری تر۔ بدعت کا لفظ حدیث میں جہاں کہیں آیا ہے، اس کا ذکر مذمت اور برائی ہی کے ساتھ آیا ہے۔ ایک حرف بھی کسی خبر و اثر میں ایسا نہیں آیا جس سے بدعت کی کچھ تعریف ہوتی ہو۔ دین نے ہر بدعت کو علی العموم گمراہی قرار دیا ہے۔ اس کا یہ قاعدہ کلیہ حدیث میں موجود ہے: (( کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَا لَۃٌُ )) [2] [ہر بدعت گمراہی ہے] بدعت صرف عمل ہی میں رونما نہیں ہوتی، بلکہ یہ سب سے پہلے عقائد میں آتی ہے اور جب بدعت عقیدے میں در آتی ہے تو بدعتی ہر بدعت پر عمل کرنے لگتا ہے، پھر اعمال میں بھی فساد رونما ہوتا ہے اور احسان میں بھی ریا کاری اور شو بازی آجاتی ہے۔ ان خرابیوں سے وہی شخص بچا ہوا ہے جس نے قرآن و حدیث کو اپنا پیشوا ٹھہرایا ہے اور زید و عمرو کے فسون و فسانے سے اپنے دل و دماغ اور سمع و بصر کو بچایا ہے۔
Flag Counter