Maktaba Wahhabi

408 - 589
اپنی روح اور دل کے ساتھ میت کی طرف متوجہ ہو اور اس پر ہمت جمع کر کے یوں وقوف کرے کہ پھر غیر کی طرف اس کا التفات و توجہ بالکل باقی نہ رہے۔ پھر جس قدر جمعِ ہمت و قلب زیادہ ہو گا، اتنا ہی فائدہ زیادہ اور جلد حاصل ہو گا۔ ابن سینا اور فارابی وغیرہ نے بھی اسی طرز پر اس زیارت کا ذکر کیا ہے اور ستارہ پرستوں نے بھی اپنی عبادت میں اس زیارت کی تصریح کر کے یہ بات کہی ہے کہ نفسِ ناطقہ کا جب ارواحِ علویہ سے تعلق ہو جاتا ہے تو اس پر نور کا فیضان ہوتا ہے، اسی وجہ سے ستاروں کی پرستش کی گئی، ان کی شکلیں بنائی گئیں اور دعائیں تصنیف ہوئیں اور بت تیار کیے گئے۔ یہ بعینہ وہ چیز ہے جس نے گور پرستوں کے لیے قبروں پر میلے لگانا، ان پر پردے لٹکانا، ان پر چراغ جلانا اور ان پر مساجد تعمیر کرنا واجب کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی کو باطل کرنے اور اس ذریعے کو بند کرنے کا قصد فرمایا اور مشرکوں نے اس راہ میں کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مقصد کا مقابلہ کیا۔ پھر انھوں نے قبروں کی زیارت کے بارے میں جو ذکر کیا ہے، یہ وہی شفاعت ہے جس کی نسبت ان مشرکوں کا یہ گمان ہے کہ ان کے معبود ان کو نفع پہنچائیں گے، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ جب اس زائر کی روح، فوت شدہ کی روح سے لگاؤ پیدا کر لیتی ہے تو ان دونوں کے درمیان ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے جس کے سبب سے وہ چیز جو اسے اللہ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے، اس کا ایک حصہ اسے بھی ملتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جو شخص کسی ایسے صاحبِ مرتبہ کی خدمت بجا لاتا ہے جو بادشاہ کے نزدیک عزت و آبرو والا ہے تواسے بھی اس تعلق اور خدمت کے بقدر سلطان سے کچھ انعام مل جاتا ہے، حالانکہ اول سے تا آخر قرآن مجید ان اقوال کے رد سے بھرا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو رد کرنے کے لیے اپنی کتابیں نازل فرمائی ہیں ، ان اقوال کے قائلین کو کافر قرار دیا ہے، ان پر لعنت فرمائی ہے، ان کے خون و مال اور ان کی اولاد کو گرفتار کرنا مباح کر دیا ہے اور جہنم کی آگ کو ان پر واجب کر دیا ہے۔ اس سے متعلق دو آیات درج ذیل ہیں : ﴿ اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُفَعَآئَ قُلْ اَوَ لَوْ کَانُوْا لاَ یَمْلِکُوْنَ شَیْئًا وَّلاَ یَعْقِلُوْنَ * قُلْ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ثُمَّ اِِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ [الزمر: ۴۳-۴۴]
Flag Counter