Maktaba Wahhabi

399 - 589
مقدر اور موخر ہے۔ اس سے اللہ کے نام سے نہ کہ کسی غیر کے نام سے ابتدا کرنے کا اختصاص سمجھ میں آتا ہے اور اس میں جو اخلاصِ توحید ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ پھر ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ﴾ میں لفظ ﴿اَلْحَمْدُ﴾ میں تعریف نے یہ فائدہ دیا کہ حمد اللہ ہی پر مقصور ہے۔ اسی طرح ﴿لِلّٰہِ﴾ کا ’’لام‘‘ حمد کے اللہ کے لیے خاص ہونے کو مفید ہے اور اس کا تقاضا یہ ہوا کہ غیر کے لیے اصلاً حمد نہیں ہے اور جو حمد غیر کے لیے واقع ہو، وہ عدم کے حکم میں ہے۔ یہ بات مقرر ہے کہ جمیل اختیاری پر تعظیم کے قصد سے زبان سے کی جانے والی ثنا کو ’’حمد‘‘ کہتے ہیں ، چنانچہ ثابت ہوا کہ ثنا صرف اللہ پر، جمیل صرف اللہ کی طرف سے اور تعظیم صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس جملے میں جو اخلاصِ توحید ہے، توحید کے بیان میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لفظ ﴿لِلّٰہِ﴾ توحیدِ الوہیت کے لیے مفید ہے اور لفظ ﴿رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ توحیدِ ربوبیت کے بیان کا فائدہ دیتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ توحیدِ الوہیت اور توحیدِ ربوبیت ہر دو اللہ کے لیے خاص ہیں نہ کہ کسی اور کے لیے۔ ﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ سے اس بات کا فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی کوئی مِلک نہیں ہے، تو اب اکیلے اللہ ہی کا تصرف نافذ رہا۔ ساری مخلوق میں سے کسی کا کوئی تصرف نہ ہوا۔ اس سلسلے میں نبی مرسل، مقرب فرشتے اور نیک بندے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح مذکورہ جملے کی قرائت ﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ حکم صرف اللہ ہی کا ہے نہ کہ کسی اور کا اور امر اسی کا امر ہے نہ کہ کسی غیر کا، جس طرح کہ دنیا میں بادشاہانِ زمین کے ہوتے ہوئے کسی کا حکم وامر نہیں ہوتا ہے تو اللہ تو وہ ذات ہے جس نے اپنے متعلق یہ فرمایا: ﴿وَ لِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی﴾ [النحل: ۶۰] [اور اللہ کے لیے سب سے اونچی مثال ہے] اللہ تعالیٰ نے ﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ کے معنی کی تفسیر قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ پر یوں کی ہے: ﴿ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ *ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ * یَوْمَ لاَ تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا وَّالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ﴾ [الانفطار: ۱۷۔۱۹] [اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ جزا کا دن کیا ہے؟ پھر تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ جزا کا دن کیا ہے؟ جس دن کوئی جان کسی جان کے لیے کسی چیز کا اختیار
Flag Counter