Maktaba Wahhabi

365 - 589
کو ملو تو اس سے دعا کا مطالبہ کرو۔[1] اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے مومن بھائی کے حق میں مومن کی دعا کو بہت موثر قرار دیا ہے۔[2] جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عمرے کے لیے روانہ ہوئے تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے دعا کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا: (( لَا تَنْسَنَا یَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِکَ )) [3] [اے میرے بھائی! ہمیں اپنی دعا میں بھلا نہ دینا] لہٰذا اگر کوئی شخص کسی نیک آدمی کے پاس آ کر یہ کہے: تم میرے لیے دعا کرو تو یہ بات اس طرح کی نہیں ہے جو گور پرست کیا کرتے ہیں ، بلکہ دعا کروانا ایک سنتِ حسنہ اور شریعتِ ثابتہ ہے، لیکن زندہ شخص سے نہ کہ مردے سے، اور یہی حال اس شخص سے طلبِ شفاعت کا ہے جس کا اہلِ شفاعت ہونا شریعتِ مطہرہ سے ثابت ہے، جیسے انبیاo۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم سے ارشاد فرمائے گا: (( سَلْ تُعْطَہٗ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ )) [4] [آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)سوال کریں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی] آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ سفارش اسی جگہ پر ہو گی جس کا نام مقام محمود ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وعدہ فرمایا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ زندوں سے حاجات طلب کرنا جائز ہے بشرطیکہ انھیں اس پر قدرت حاصل ہو، جیسے دعا کرانا۔ چنانچہ اس قسم کی مدد چاہنا ہر مسلمان سے نہ صرف جائز ہے، بلکہ مستحب ہے۔ اسی طرح ان اہلِ شفاعت سے شفاعت کا مطالبہ کرنا درست ہے، جن کے حق میں شریعت نے
Flag Counter