Maktaba Wahhabi

269 - 589
ہوتے۔ عمل میں قصور تھا تو عقیدہ ہی درست ہوتا، اس لیے کہ شرک کے ہم راہ نجات محال ہے۔ شرک کے ستّر (۷۰) گھر ہیں ۔ ہمتِ قلب اور توفیقِ الٰہی کے بغیر آگ سے بچنا اُس دن ممکن نہیں ہے، کیونکہ جس طرح گناہ سے عمل میں فساد آتا ہے اسی طرح عقیدے میں فساد سے ایمان برباد ہو جاتا ہے۔ جس کو یہ فرق معلوم ہے، اُس پر واجب ہے کہ اپنے ایمان کو اس آخری زمانے میں جس طرح ممکن ہو بچائے اور دین کے رہزنوں سے بچ کر نصوصِ شرع مبین پر جما رہے۔ قرآن کو امام سمجھے اور سنت کو مقتدیٰ جانے اور اسلام کی پانچ بنیادوں کو دانتوں سے پکڑے اور کسی کے اختلاف و اعتساف میں نہ پڑے۔ جو شخص مشرک، بدعتی، بدعقیدہ، دنیا دار اور فاسق بد کردار ہو، اُس کے منہ نہ لگے۔ اب مناظرۂ حق اور تحقیقِ صواب کا وقت بھی باقی نہیں ، جس کو دیکھو وہ اپنے مذہب، آبا اور ائمہ کے لیے تعصب کرتا ہے اور وضوحِ حق کے بعد بھی اذعان وایقان نہیں لاتا۔ یہ سب علاماتِ قیامت کا نتیجہ ہے۔ ایسے ہی وقت کے لیے حدیث میں یہ فرمایا ہے: (( عَلَیْکَ بِخَاصَّۃِ نَفْسِکَ وَدَعْ أمْرَ الْعَوَامِّ )) أو کما قال۔[1] [خاص طور پر اپنی پروا کر اور عوام کے معاملے کو چھوڑ دے۔‘‘ یا جیسا فرمایا] علماے آخرت اول تو ہزار میں ایک بھی نہیں ہے اور اگر کسی جگہ ایسے ہوں گے تو جہاں بھر سے زیادہ مبغوض، مردود، مطرود اور مخذول ہیں ، پھر اُن میں بھی یہ بَلا موجود ومشہور ہے کہ حسنِ عقیدہ کے باوجود محبِ دنیا ہیں ۔ پھر اُن علما کا کیا ذکر ہے جو نِرے بندۂ شکم اور پرستارِ دینار و درہم ہیں ؟ اُن کا تو یہی حال ہو گا کہ ’’آخر الدرہم ہَمٌّ، وآخر الدنیا نَارٌ‘‘ [درہم کا آخر غم اور دینار کا انجام آگ ہے] زر پرستی می کند دل را سیاہ آخر ایں صفراء بہ سوداء می کشد [زر پرستی دل کو سیاہ کرتی ہے آخر یہ زردی (مال وزر) سیاہی کو کھینچ لاتی ہے] پھر جب علما ایسے ٹھہرے تو عوام کس قطار شمار میں ہیں ؟ وہ تو ہمیشہ سے کالانعام (چوپایوں جیسے) ہوتے آئے ہیں ۔ وبالجملۃ فالنّاس کلہم ھلکیٰ إلاّ العالمون، والعالمون کلّہم ھلکی إلاّ
Flag Counter