Maktaba Wahhabi

224 - 589
حق ادا کیا۔ خیر القرون تک یہی حالت تھی۔ ائمہ مذاہب اربعہ اور اصحابِ صحاح سِتّہ اسی زمانہ ہدایتِ نشانہ کے اعیان کامل الایمان تھے۔ جب ہجرت نبویہ پر دو سو برس کا عرصہ گزر گیا تو آیاتِ ساعت کا ظہور ہونے لگا، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: (( اَلْآیَاتُ بَعْدَ الْمِأَتَیْنِ )) [1] [علاماتِ ساعت کا ظہور دوسو برس کے بعد ہو گا] بعد ازاں اہلِ شرک وبدعت نے سر اُٹھایا اور ملت حقہ کو مٹانے کے لیے کوئی مکر و فریب اُٹھا نہ رکھا، یہاں تک کہ جب قتال و جدال سے کام نہ چلا، تب اظہارِ اسلام کے ذریعے مسلمانوں میں آ ملے اور اس پردے میں ہر طرح کا فساد برپا کیا۔ مطلب یہ تھا کہ لوگ مسلمان نہ رہیں ، بلکہ اہلِ کتاب اور مجوس ہو جائیں ، جس طرح کہ زمین انھیں فِرَق سے باعتبار ملّت وسلطنت کے لبریز تھی، مگر اللہ کی رحمت اس کے غضب پر سابق ہے اور اُس کو دین حق کا باقی رکھنا قیامت تک منظور ہے، اور کیوں نہ ہو کہ آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم تک لا تعداد رسول آئے اور کتابیں لائے، لیکن اکثر امتوں نے اُن کی بات نہ سنی اور کوئی اُن پر ایمان نہ لایا۔ إلا ماشاء اللّٰه تعالیٰ (مگر جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا) ﴿وَقَلِیْلٌ مَّا ھُمْ﴾ [صٓ: ۲۴] [اور ایسے لوگ بہت کم ہیں ]، ﴿ وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ﴾ [سبأ: ۱۳] [اور میرے بندوں میں سے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں ]۔ حالانکہ اُن انبیا کی رسالت خاص تھی نہ کہ عام۔ اکثر پیغمبر کسی خاص قوم یا خاص شہر میں ہوتے تھے، لوگ اُن کی مخالفت کرتے، بلکہ اُن کو مارڈالتے۔ جب یہ حال ہوا، تب اللہ تعالیٰ نے اتمامِ حجت کے واسطے سید الرسل خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا۔ اُن کو سارے جہان کا پیغمبر ٹھہرایا اور ساری اگلی شریعتوں اور تمام کتابوں کو منسوخ فرما کر اسی ایک کتاب عزیز اور سنت مطہرہ کو واجب العمل قرار دیا۔ اب جو ان دونوں کا معتقد اور ان پر عامل نہیں ہے، وہ کافر مُشرک اور جاہل ہے۔
Flag Counter