Maktaba Wahhabi

163 - 589
﴿ وَ لَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [الأنعام: ۸۸] [اور اگر یہ لوگ شریک بناتے تو یقینا ان سے ضائع ہو جاتا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے] اگر انسان میں سمجھ کی کوئی رتی باقی ہو تو یہ رونے کا مقام ہے، اس لیے کہ اللہ کے رسول اور نبی اولادِ آدم میں سے اشرف اور اکرم ہیں ، جب شرک میں ان کی رعایت نہ رکھی گئی تو اب کسی دوسرے شخص کی کیا ہستی ہے کہ اس سے شرک کے معاملے میں درگزر کی جائے؟! امام مجاہد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قوم کے خلاف جو حجت عطا کی تھی، وہ یہ ہے: ﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ﴾ [الأنعام: ۸۲] [وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں ] صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے۔[1] جس سے ثابت ہوا کہ مشرک کو امن حاصل نہیں ہو گا۔ یہ امن تو صرف موحد کے لیے ہے، وللّٰه الحمد۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی عدمِ رعایت سے متعلق مزید فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِِلَیْکَ وَاِِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ* بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ﴾ [الزمر: ۶۵۔۶۶] [اور بلاشبہہ یقینا تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلا شبہہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقینا تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے گا۔ بلکہ اللہ ہی کی پھر عبادت کر اور شکر کرنے والوں سے ہو جا] اس آیت میں فرضِ محال کے طریقے سے امت کی راہنمائی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہود علیہ السلام نے اپنی قوم عاد سے، صالح علیہ السلام نے اپنی قوم ثمود سے، شعیب علیہ السلام نے
Flag Counter