Maktaba Wahhabi

131 - 589
دریافت کیا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایمان کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’(ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ پر، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں ، اس کی ملاقات اور آخرت میں دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان لائے۔‘‘ اس نے پھر سوال کیا: ’’اسلام کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’(اسلام یہ ہے کہ) تو اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، فرض نماز قائم کرے، فرض زکات ادا کرے اور ماہِ رمضان کا روزہ رکھے۔‘‘ اس نے پھر دریافت کیا: ’’احسان کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ((أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنَّکَ إِنْ لَّا تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ)) ’’تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھتا ہے، پھر اگر (تیری ایمانی کیفیت یہ ہے کہ ) تو اسے نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھتا ہے۔‘‘[1] (رواہ مسلم) قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث (حدیثِ جبریل) میں تمام عبادات ظاہرہ و باطنہ کے وظائف کی شرح اور وضاحت موجود ہے۔ عقودِ ایمان، اعمالِ جوارح اور اخلاصِ سرائر ہوں یا آفاتِ اعمال سے تحفظ کا معاملہ سبھی کچھ اس میں مذکور ہے۔ سارے علومِ شرعیہ اسی کی طرف لوٹتے ہیں اور اسی سے متفرع ہوتے ہیں ۔ اس حدیثِ جبریل کی بنیاد پر ہم نے کتاب ’’المقاصد الحسان فیما یلزم الإنسان‘‘ تالیف کی ہے، کیونکہ واجبات ہوں یا سنن، رغائب و مخطورات ہوں یا مکروہات، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو حدیث میں مذکور تین اقسام سے باہر ہو۔[2] انتھیٰ۔ محققین اور جمہور سلف و خلف کا مذہب یہ ہے کہ جب آدمی نے جزم اور پختگی کے ساتھ شک و شبہے سے بالاتر ہو کر دینِ اسلام کا اعتقاد کر لیا تو وہ موحد مومن بن گیا، اب اس پر معرفتِ الٰہی کے لیے متکلمین کے دلائل کو سیکھنا واجب نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایمان کے لیے صرف اس کی تصدیق کرنے پر اکتفا فرمایا تھا، دلیل کے ساتھ اس کی معرفت حاصل کرنے کو شرط قرار نہیں دیا۔ صحیحین میں اس کی دلیل کے لیے اتنی کثرت سے احادیث مروی ہیں ، جن کے
Flag Counter