Maktaba Wahhabi

163 - 614
اسی کی مثل قائل کا یہ قول بھی ہے کہ : (اِذَا اَکَلْتَ فَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ) ’’یعنی جب تم کھانے کا ارادہ کرو تو بسم اللہ پڑھو۔‘‘ اس کے قطعاً یہ معنی نہیں کہ کھانے سے فراغت کے بعد بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔‘‘ امام واحدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، فقہائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ استعاذہ قراء ت سے پہلے ہے۔[1] اس میں شبہ نہیں کہ شرع میں عمومی دعا کی تاکید و تلقین اور فضیلت وارد ہوئی ہے اور غالباً اسی بناء پر فقہائے حنفیہ نے جنازے میں قراء ت سے استغناء اختیار کرکے اس کا نام دعا و ثناء وغیرہ رکھا ہے۔’’ مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ‘‘میں ہے: (لَا قِرَائَ ۃَ عَلَی الْجَنَازَۃِ وَ ہُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ) اور یہ قول’’ المبسوط‘‘ سرخسی میں بھی ہے۔(2/64) البتہ محقق ابن الہمام ’’فتح القدیر‘‘(1/498) میں فرماتے ہیں کہ فاتحہ نہ پڑھے تاہم بہ نیت ثناء پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ قراء ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ علامہ ابن الہمام جیسے محقق کی یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اس لیے کہ فاتحہ کی قراءت کا اثبات تو ’’صحیح بخاری‘‘ میں موجود ہے۔ (بَابُ یَقْرَأُ فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ عَلَی الْجَنَازَۃِ) تو پھر کیا یہ بات معقول ہے کہ اثنائے جنازہ میں اخلاصِ دعا کی تاکید تو نہ ہو لیکن سلام پھیرنے کے بعد کہا جائے کہ اب اخلاص سے دعا کرو ۔ غالباً اس دھوکہ کے پیش نظر نمازِ جنازہ کا تو جھٹکا کرتے ہیں بعد میں لمبی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں۔ جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ واضح ہو کہ ’’اصولِ فقہ‘‘‘ کا قاعدہ معروف ہے کہ عبادات میں اصل ممانعت ہے جواز کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ (یعنی دعا سمیت ہر دعا کے لیے دلیل کی ضرورت ہے) عہدِ نبوت میں کتنے جنازے پڑھے گئے کسی ایک موقع پر بھی ثابت نہیں ہو سکا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد از جنازہ دعا کی ہو۔ صحیح حدیث میں ہے: (مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ)[2] ” یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (عَلَیْکَ بِالْاَثَرِ وَ طَرِیْقَۃِ السَّلْفِ وَ اِیَّاکَ وَ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ فَاِنَّہَا بِدْعَۃٌ )[3] ”آثار اور طریقہ سلف کو لازم پکڑو۔ اپنے آپ کو دین میں اضافہ سے بچاؤ کیوں کہ وہ بدعت ہے۔‘‘
Flag Counter