Maktaba Wahhabi

331 - 614
مسجد کی رقم مدرسہ پر خرچ کرنے کا جواز سوال۔کیا مسجد کی رقم مدرسہ میں لگ سکتی ہے جو کہ اسی مسجد میں قائم ہو۔؟ (از عبداللہ ) (15 مارچ 1996ء) جواب۔ مسجد اور مدرسہ دونوں چونکہ وقف ہیں لہٰذا مسجد کی رقم مدرسہ پر صرف ہو سکتی ہے۔ مقامی مستحقین کو نظر انداز کرکے جہاد کے لیے فنڈ جمع کرنے کا حکم سوال۔آج کل ہر شہر اور قصبہ میں کارکنان جمعیت اہل حدیث اور مرکز الدعوۃ میں مختلف مسائل پر چپقلش چل رہی ہے۔ ہر فریق اپنے اپنے جماعتی جریدہ کے مسائل کو حتمی سمجھ کر دوسرے کو غلط قرار دے رہا ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر مرکز الدعوۃ کے لڑکوں نے جہاد کے نام پر قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے کی مہم چلائی ۔ ہمارے قریبی شہر کے ایک عالم نے کہا کہ قربانی کی کھالوں کے حق دار مقامی غریب اور مسکین لوگ ہیں۔ یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ مساکین کا حق چھین کر آپ کشمیری مجاہدین کے حوالے کردیں ، کشمیری مجاہدوں کی مدد کرنی ہے تو اصل مال سے کریں۔ اور مرکز الدعوۃ کے لڑکوں کے سپرد کرنے کی بجائے مہاجرین اور مجاہدین کو خود دے کرآئیں۔ مرکز الدعوۃ کے کارکنوں نے شور مچا دیا کہ یہ لوگ جہاد کے منکر ہیں۔ مدارس نے آج تک کیا کیا ہے۔ اصل کام تو جہاد ہے جس سے یہ لوگ بھاگتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ سے گزارش ہے کہ بغیر کسی کی رعایت کرتے ہوئے قرآن وسنت کی رُو سے اس مسئلہ کی وضاحت کریں کہ قربانی کی کھالوں کے اصل حق دار کون ہیں؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فطرانہ ، صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ اور کھالیں اکٹھی کرکے مجاہدوں کو دی جاتی تھیں؟ (اے ٹی سلفی، بورے والا) (4اگست 1995ء) جواب۔ صدقہ خیرات کے اصل مستحق مقامی فقراء و مساکین ہیں چنانچہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ’’زاد المعاد‘‘ (3/46) میں فرماتے ہیں : ”جس کا حاصل یہ ہے کہ قوم نجیب کے قاصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اپنے ساتھ صدقات بھی لیتے آئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عزت کی اور فرمایا کہ ان صدقات کو اپنے فقیروں میں تقسیم کردو۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے فقیروں سے جو کچھ بچا ہے وہی لائے ہیں۔“ اور حدیث میں ہے: ( فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْہِمْ صَدَقَۃً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِہِمْ)[1]
Flag Counter