Maktaba Wahhabi

115 - 614
”یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دو سلام پھیرتے تھے۔ ‘‘ اس سے پہلی حدیث کے اجمال کی وضاحت ہو جاتی ہے۔(تلخیص احکام الجنائز) لیکن علامہ عینی کی شرح بخاری بحوالہ المعرفہ ابن مسعود کی اسی روایت میں دو سلام کی تصریح ہے۔ نیز سنن کبریٰ بیہقی میں عبد اللہ بن ابی اوفیٰ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی نمازِ جنازہ پر دو سلام پھیرے تو کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے زیادہ نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے ۔ لیکن اس میں شریک عن ابراہیم منفرد ہے۔ معروف ان سے ایک سلام ہے۔ اور اگر کوئی صرف ایک سلام پر اکتفا کرے تو یہ بھی جائز ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں تصریح ہے: (أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا وَسَلَّمَ تَسْلِیمَۃً وَرُوِینَا عَنْ عَطَاء ِ بْنِ السَّائِبِ مُرْسَلًا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: سَلَّمَ عَلَی الْجِنَازَۃِ تَسْلِیمَۃً وَاحِدَۃً)[1] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ پڑھی اور چار تکبیریں کہیں اور ایک سلام پھیرا۔‘‘ اس بناء پر علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں دونوں طرح جواز نقل کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ عون المعبود:3/193) اختتامِ جنازہ پر سلام پھیرتے ہوئے ہاتھ کیسے چھوڑے جائیں؟ سوال۔لوگ جب نمازِ جنازہ میں دائیں طرف سلام پھیرتے ہیں تو دایاں ہاتھ اور جب بائیں طرف سلام پھیرتے ہیں تو بایاں ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔ مذکورہ کیفیت صحیح ہے یا غلط؟(ہدایت الٰہی۔لاہور) (27 ستمبر 2002) جواب۔نمازِ جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ چھوڑنے چاہئیں کیوں کہ اسی حالت میں آدمی نماز سے فارغ سمجھا جاتا ہے۔ ہاں البتہ اگر صرف ایک ہی سلام پر اکتفا کرنی ہو۔(جو احادیث سے ثابت ہے) تو پھر ہاتھ چھوڑنا بلاتردد جائز ہے۔ نمازِ جنازہ کا سلام ہاتھ چھوڑ کر پھیرنے کی وضاحت سوال۔ایک شخص کہتا ہے کہ نمازِ جنازہ کا سلام ہاتھ چھوڑ کر پھیرنا چاہیے۔ جب کہ دوسرا شخص کہتا ہے کہ اگر سلام سے قبل ہاتھ چھوڑ دیے جائیں تو پھر نماز نہیں ہو گی۔ اس لیے سلام کے بعد ہاتھ چھوڑنا چاہیے۔
Flag Counter