Maktaba Wahhabi

613 - 614
جواب۔اسلام خاندانی منصوبہ بندی کا قائل نہیں۔ بلکہ اس نے تکثیر نسل کی ترغیب دی ہے۔ اس قسم کی نصوص اہل علم سے مخفی نہیں۔ ذخیرہ احادیث میں متعدد روایات موجود ہیں جو اس کی تردید کے لیے کافی و شافی اور وافی ہیں۔ واللہ ولی التوفیق۔ خاندانی منصوبہ بندی کس حدتک جائز ہے؟ سوال۔ اس کے علاوہ جلد نمبر50شمارہ 17 احکام و مسائل کے کالم میں ،ص:8پر آخری سوال کہ خاندانی منصوبہ بندی کس حد تک کرنا جائز ہے؟ تو اس کے جواب میں لکھا گیا ہے کہ اسلام منصوبہ بندی کا قائل نہیں۔ راقم الحروف کو اس نظریہ سے اختلاف ہے۔ میرے ناقص مطالعہ کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عزل کیا کرتے تھے۔ اور یہ بھی منصوبہ بندی کی ایک شکل ہے اور بعد میں اس پر عمل جاری رہا۔ اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس کو جائز سمجھتے تھے۔ اس کے شواہد بخاری و مسلم میں ہیں۔ اس کے متعلق جو روایتیں ملتی ہیں ان پر آپ بحث کریں کہ ان کا مطلب یہ ہے ؟ یہ کس لیے ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ یا اگر مجھے کہیں تو میں آپ کو ایک مضمون بھی لکھ کر بھیج سکتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ میرے سوالات پر غور فرما کر مجھے جواب سے نوازیں گے۔( فیصل مختار) (3جولائی 1998ء) جواب۔ منصوبہ بندی اور عزل میں فرق یہ ہے کہ پہلی صورت میں قطع نسل مقصود ہوتا ہے جب کہ فعل عزل عارضی اور وقتی شئے ہے۔ اس کے باوجود بسا اوقات حمل ہو جاتاہے۔ پھر فعل عزل کو بھی شرع میں مکروہ سمجھا گیا ہے ۔ جواز کی صورت میں عورت کی رضا سے معلّق کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس سے لذت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ لہٰذا منصوبہ بندی کو عزل پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ ذاتی مسائل و وسائل کے پیش نظر بچوں میں وقفہ کا حکم؟ سوال۔ اپنے ذاتی مسائل و وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے مطابق موجودہ بچوں کی صحیح طور پر تعلیم و تربیت کی خاطر کیا مزید بچے پیدا نہ کرنے کی گنجائش ہے؟ بے شک رزق اللہ دیتا ہے۔ اور بھوکا کوئی نہیں مرتا۔ مگر یہ بات مشاہدہ کی ہے کہ کم وسائل والے آدمی کی کثیر اولاد مناسب تعلیم وتربیت کی کمی یا نہ ہونے کی وجہ سے خود بھی ناگفتہ بہ حالت میں ہوتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات ہمسایوں اور معاشرہ کے لیے بھی تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ حالات کے پیش نظر عمومی معیارِ زندگی بدل گیا ہے۔ جو چیزیں کل کلاں عیش و عشرت کا سامان تھیں۔ آج ضروریاتِ زندگی بن چکی ہیں۔ ان کا انکار کرنا مشکل امر ہے کیونکہ انسان کو انسانوں کی طرح رہنے کا حق ہے۔ مزید یہ کہ آسودگی میں انسان دین و مذہب پر بھی توجہ دیتا ہے جبکہ جہالت و افلاس نے منکر انسانوں کو شرک و گمراہی میں دھکیلا ہوا ہے۔ بے شک اس کے مقابلہ میں کثرت ِ دولت بری چیز ہے جو عیاشی اور تکبر کو جنم دے کر انسانوں کوگمراہ کرتی ہے۔ مگر سوال کا مدعا اوسط درجہ کی زندگی کے حصول کے متعلق ہے۔ (15نومبر 1996ء)
Flag Counter