Maktaba Wahhabi

80 - 614
(وَکَانَ یَأْمُرُنِی، فَأَتَّزِرُ، فَیُبَاشِرُنِی وَأَنَا حَائِضٌ)[1] ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم فرماتے میں کپڑا باندھ لیتی پھر میرے جسم کے ساتھ جسم لگاتے جب کہ میں حیض سے ہوتی۔‘‘ حدیث ہذا عورت کے جسم کی طہارت کی دلیل ہے۔ لہٰذا حائضہ عورت کا میت کو ہاتھ لگانا جائز ہے۔ سابقہ دلائل سے معلوم ہوا کہ اصل کے اعتبار سے عورت طاہرہ ہے۔ لہٰذا ہاتھ لگانے کے لیے وضوء کی ضرورت نہیں۔ یوم تمنائے موت، جمعہ یا سوموار؟ سوال۔کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن فوت ہو جائے تو اللہ جل جلالہ اس پر سے قیامت تک عذاب ہٹا لیتاہے۔ یہ مسئلہ کہاں تک درست ہے؟(سائل زرین جمال سلفی نگری ضلع بونیر) (25 اکتوبر،1991) جواب۔ جمعہ کی رات یا دن موت کی فضیلت کے بارے میں وارد روایات ضعیف ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے’’صحیح بخاری‘‘کے کتاب الجنائز کے اختتام پر حضرت عبد اللہ بن عمرو سے مروی حدیث : (مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَمُوتُ یَوْمَ الجُمُعَۃِ أَوْ لَیْلَۃَ الجُمُعَۃِ إِلاَّ وَقَاہُ اللّٰهُ فِتْنَۃَ القَبْرِ) [2] ”یعنی جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ فرما لیتا ہے۔‘‘ نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں: (’وَفِی إِسْنَادِہِ ضَعْفٌ وَأَخْرَجَہُ أَبُو یَعْلَی مِنْ حَدِیثِ أَنَسٍ نَحْوَہُ وَإِسْنَادُہُ أَضْعَفُ) [3] ” اس حدیث کی سند میں ضعف ہے اور اس کی مانند حدیث ابو یعلی نے بھی حضرت انس سے بیان کی ہے لیکن اس کی سند اس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔‘‘ مذکور حدیث کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں: ( وَہَذَا حَدِیثٌ غَرِیْبٌ وَ لَیْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ رَبِیعَۃُ بْنُ سَیْفٍ إِنَّمَا یَرْوِی عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الحُبُلِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو، وَلاَ نَعْرِفُ لِرَبِیعَۃَ بْنِ سَیْفٍ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو) [4]
Flag Counter