Maktaba Wahhabi

144 - 614
السَّلَفِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُم)[1] یعنی’’یہ وہ بدعت ہے جس میں سنت اور مذہب سلف صالحین سے باخبر کوئی عالم بھی شبہ نہیں کر سکتا۔‘‘ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یوں نقل کی ہے، کہ غائب میت اگر ایسی سَر زمین میں فوت ہوئی جس پر نمازِ جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تو اس پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جائے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی۔ اگر نمازِ جنازہ پڑھی جاچکی ہو تو اس پر غائبانہ نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے۔[2] میت کی آمد سے قبل جنازہ ادا کرنا : سوال۔ جنازہ کراچی سے نتھیا گلی کے لیے بذریعہ جہاز روانہ ہوا۔ لوگ نتھیا گلی جمع ہوئے قبر تیار ہوئی اطلاع ملی کہ جہاز بوجہ خرابی موسم واپس کراچی مع جنازہ چلا گیا ہے اور واپسی لیٹ ہوگی۔ کیا وہاں جمع لوگ جنازہ پڑھ سکتے ہیں۔ جب کہ میت ابھی دوران سفر میں ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ میت دوسرے دن یا رات آبائی گاؤں پہنچے گی۔ کیا اس طرح غائبانہ نمازِ جنازہ جائز ہے۔ جواب۔ غائبانہ جنازہ کا جواز تو ہے۔ نجاشی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ( اِنَّ اَخَاکُم قَد مَاتَ بِغَیرِ اَرضِکُم ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَیہِ)[3] ’’تمہارا بھائی غیر زمین میں فوت ہوگیا۔ اٹھو، اس کی نمازِ جنازہ پڑھو۔‘‘ اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے:(قَد تُوُفِّیَ الیَومَ) [4]آج فوت ہوا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میت پر نمازِ جنازہ اس کے لیے دعا ہے اور یہ میت کے کفن میں ملفوف ہونے کی صورت میں جائز ہے تو غائبانہ یا قبر پر اس کے لیے کیوں جائز نہیں۔ (فتح الباری 3/31) اور شوکانی رحمۃ اللہ علیہ (الدررالبہیۃ) میں فرماتے ہیں: کہ صلوۃِ جنازہ قبر پر پڑھی جائے اور غائب میت پر بھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ میت کے دفن یا عدمِ دفن سے اصل مسئلہ کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا معاملہ دونوں کا ایک جیسا ہے۔ قصۂ نجاشی عموم کی دلیل ہے۔لیکن موجودہ صورت میں میت کی آمد کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ اس کی آمد متوقع ہے۔ ہڈیوں یا غیر حاضر میت پر جنازہ کا کیا حکم ہے؟ سوال۔ ہمارا بھائی گزشتہ 2سال سے لاپتہ تھا۔ جس کی عمر 32 سال تھی۔ اب اچانک پتہ چلا کہ 2 آدمیوں نے اسے قتل
Flag Counter