Maktaba Wahhabi

289 - 614
حکومتِ وقت کے بیت المال کو برائے قرض دینا سوال۔ حکومت ِ وقت کے بیت المال کو برائے قرض۔ 1۔ برائے تعلیم نادار طلباء ، کتب، خوراک۔ 2۔ برائے علاج معالجہ غرباء و مساکین۔ (محمد الیاس۔دوائی والا۔ کراچی) (22 اگست1997ء) جواب۔ حکومت کوبرائے قرض زکوٰۃ دینا صحیح نہیں۔ کیوں کہ اس سے حق داروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ دوسرا ادائیگی قرض بمع بیاج ہے جو تعاون علی الاثم کے زمرے میں د اخل ہے۔ تیسرا لفظ حکومت میں جو تفوق کا پہلومضمر ہے اس کے بھی خلاف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عام الرماد کو انتہائی محتاجگی کے باوجود لوگوں کی طرف نگاہ نہیں اٹھائی بلکہ رب العزت سے اپنے تعلق کو مضبوط تر بنایا۔ نادارطلباء کی کتب اور خوراک کے علاوہ غرباء مساکین کے علاج معالجہ پر بھی مالِ زکوٰۃ صرف ہو سکتا ہے۔ قرض کی رقم پر کئے گئے کاروبار سے حاصل ہونے والے نفع پر زکوٰۃ سوال۔ایک شخص کا کاروبار چالیس ہزار وپے کا ہے جس میں سے دس ہزاروپے قرض کے ہیں۔ کیا زکوٰۃ چالیس ہزار روپے کی نکالے یا کہ تیس ہزار روپے کی؟(سائل عبدالرزاق عام۔پڈعیدن) جواب۔ مذکورہ صورت میں رأس المال اور منافع موجودہ کا حساب لگا کر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اور دس ہزار قرض کی زکوٰۃ اصل مالک کے ذمہ ہے وہ ادا کرے گا۔ کاروبار پر زکوٰۃ، اور جو قرض لینا ہے اس پر زکوٰۃ کا حکم سوال۔ایک آدمی جب وہ دکان کا کام شروع کرتا ہے تو اس وقت اصل رقم مبلغ ستتر(77) ہزار روپے ہے۔ کچھ عرصہ کام چلتا رہا تو اصل رقم اس نے نکال لی اب لوگوں کی رقم سے کاروبار چل رہا ہے۔ اس صورت میں اب دکان میں ستتر(77000) ہزار کا مال ماجود ہے جب کہ اس نے جو سامان بطورِ قرض لوگوں کو دیا ہے اور لوگوں سے لینا بھی ہے وہ مبلغ 76000ہزار ہے اور قرض بذمہ دکان مبلغ ایک لاکھ چھہتر ہزار (176000) روپے ہے تو اس صورت میں کتنی رقم کی زکوٰۃادا کرے گا ۔ قرآن و سنت کے ساتھ اس کا حل بتائیں کہ زکوٰۃ کتنی بنتی ہے۔ (محمد حسن احسن) (16مارچ 2001ء) جواب۔ گزرنے پر دکان کی طرف منسوب سارے مال کا حساب لگا کر اڑھائی روپے فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے۔ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں حضرت سمرۃ بن جندب سے روایت ہے ،فرمایا: ( فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَۃَ مِنَ الَّذِی
Flag Counter