Maktaba Wahhabi

561 - 614
وظائف میں اپنی طرف سے تعداد مقرر کرنا کیسا ہے؟ سوال۔ اگر کوئی شخص کسی خاص وقت پر مخصوص تعداد میں کوئی ذکر کرے جو تعداد حدیث میں مذکور نہ ہو تو کیا ایسا فعل بدعت میں شمار ہو سکتا ہے یا نہیں؟ کیا ایسا فعل باعثِ ثواب ہو سکتا ہے ؟ خصوصاً جو اسے ضروری سمجھ کر ہمیشہ کرے۔ (نور زماں۔بنوں) (19جنوری 1996ء) جواب۔ جملہ ذکر و اذکار اور وِرد و وظائف میں اپنی طرف سے تعداد مقرر کرنی جائز نہیں۔ یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے۔ اپنی طرف سے تعین کرنا بدعت شمار ہو گا۔ حدیث میں ہے: ( مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ)[1] ” یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘ وظائف میں اپنی طرف سے تخصیص کرنا ؟ سوال۔ تیسرا کلمہ (سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہَ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ) صبح و شام سو مرتبہ درود شریف صبح شام سو مرتبہ۔ توبہ و استغفار صبح شام سو مرتبہ پڑھنا کیسا ہے۔ اگر یہ تسبیحات پڑھی جائیں تو مسنون ہیں؟ (سائل) (29مارچ 1996ء) جواب۔ مذکور وِرد کے کلمات بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں ثابت ہیں۔(3/345) اس روایت میں گنتی کا تعین نہیں لیکن اسی باب کے اخیر میں تسبیح میں سو دفعہ گنتی کا بھی ذکر ہے۔ اس بناء پر اگر سو دفعہ وِرد ہذا کا تعین کر لیا جائے تو جواز کی گنجائش ہے لیکن درُود کی گنتی کو حسب توفیق پر چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ تعین متعذر ہے اوراسی کے زمرہ میں عمومی توبہ اور استغفار وغیرہ شامل ہے۔ وظائف میں اپنی طرف سے حد بندی ناجائز ہے؟ سوال۔ مکرمی و محترمی مفتی صاحب۔ السلام علیکم کراچی کے حالات دن بدن ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ مساجد میں استغفار ’’یَا سلام‘‘ اور آیت کریمہ کے ختم کیے جائیں۔ سوا لاکھ مرتبہ اور چلتے پھرتے بھی ان کا وِرد کیا جائے ۔ کیا یہ اوراد احادیث ِ صحیحہ سے ثابت ہیں۔ حوالہ تحریر فرمائیں اور کیا احادیث میں سوا لاکھ کی گنتی بھی ملتی ہے۔ امید ہے کہ احادیث کے حوالے کے ساتھ ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔ اسی طرح ایک دوسرے عالم کا فرمانا کہ انھوں نے طاعون کی وباء کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’سورۂ یٰسین‘‘ کی
Flag Counter