Maktaba Wahhabi

614 - 614
جواب۔ اس طرح کی حیلہ سازی دراصل عقیدۂ توحید میں ضعف و کمزوری کی مظہر ہے۔ اللہ رب العالمین صرف انسان کا روزی رساں نہیں بلکہ ہر ذی روح اور متنفس کی روزی کا ذمہ اس نے پہلے روز سے لیا ہوا ہے۔ ہر جنس کو اس کی طبیعت کے مطابق رزق مہیا کرکے اپنے رزاق ہونے کا ثبوت ہر آن دے رہا ہے۔ (اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ) (الذاریات:58) لیکن کمزور فطرت انسان ہے کہ اس کے دل و دماغ میں یہ بات سماتی نہیں۔ محدود وسائل پر عارضی تسلّط کی وجہ سے اپنے کو رزاق سمجھ بیٹھا ہے۔ کمی اولاد کی صورت میں صحیح تعلیم وتربیت کا دعویٰ محض ایک مفروضہ ہے۔ جس کا حقیقت ِ حال سے کوئی تعلق نہیں۔ لیل و نہار ہمارے مشاہدے میں ہے۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ کثرت ِ اولاد کے باوجود انھوں نے اولاد کی تربیت میں مثالی کردار ادا کیا اور وہ بھی ہیں جن کی اولاد کم لیکن تعلیم و تربیت سے عاری۔ شریعت ِ اسلامیہ میں تکثیر اولاد میں ترغیب کی نصوص سے یہ بات عیاں ہے کہ اسلام میں تحدید نسل کا کوئی تصور نہیں۔ راوی کا بیان ہے بصرہ میں حجاج کی آمد(75 ہجری) کے وقت حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حقیقی بچے ایک سو بیس سے اوپر فوت ہو چکے تھے۔ [1] اور’’صحیح مسلم‘‘میں اسحاق بن ابی طلحہ کی روایت میں ہے۔ زندہ اولاد و احفاد سوء (100) کے قریب تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ اس کے لیے دعا کی تھی۔ ( اللّٰهُ مَّ ارْزُقْہُ مَالًا وَوَلَدًا، وَبَارِکْ لَہُ فِیہِ) [2] اس بناء پر ان کا باغ سال میں دو دفعہ ثمر آور ہوتا تھا۔ دراصل جب سے ہم میں فکر جہاد مفقود ہوئی ہے۔ اس وقت سے ہم کمی اولاد کی برکات کے وسوسوں میں مبتلا ہوگئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جذبۂ سلیمانی علیہ السلام کو لے کر مسابقت کی راہ اختیار کرتے۔ لیکن ہماری ترقی معکوس ہے۔ رب العزت سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ پھرآسودگی کا دین و مذہب کی طرف توجہ کا باعث بننا محض خوش فہمی ہے تاریخ اوائل اس کی نفی کرتی ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے بچوں میں کمی کرنا اور روح پڑجانے سے پہلے ’’اسقاط‘‘ کا حکم سوال۔ جنین میں روح پڑنے سے پہلے اسقاط حمل کرنے سے گناہ ہوتا ہے یا نہیں؟ نیز وسائل کی کمی کی وجہ سے بچوں کی تعداد میں کمی کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ جواب۔ صورت ِ مذکورہ میں جسمانی طور پر بچے کے چونکہ بنیادی تخلیقی مراحل مکمل ہو چکے ہوتے ہیں، لہٰذا اسقاطِ حمل
Flag Counter