Maktaba Wahhabi

526 - 614
اس کا مصداق ’’یزید بن معاویہ‘‘ کو قرار دیا ہے۔ لیکن واقعاتی طور پر مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمن بن خالد بن الولید تھا، جس کا تذکرہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں موجود ہے۔ اس کے باوجود کئی ایک مؤرخین نے اس کا مصداق لشکر یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کو سمجھا ہے۔ جس میں صحابہ رضی اللہ عنھم بھی اس کی قیادت میں شامل تھے۔ لیکن اس کی طرف منسوب مذکورہ مطاعن و عیوب کا اثبات مشکل امر ہے۔ بلکہ بعض کتب تاریخ میں اس کے برعکس موجود ہے۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مصاحب ِ خاص حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خبرِ وفات سن کر اپنے حلقے کے لوگوں کو یزید کی بیعت کرنے کی تاکید کی اور یزید کے صالح ہونے کی گواہی دی۔ (اِنَّ ابْنَہُ یَزِیْدَ لَمِنْ صَالِحِی اَھْلِہٖ فَالْزَمُوْا مَجَالِسَکُمْ وَ اعْطُوْا طَاعَتَکُمْ وَ بَیْعَتَکُمْ) [1] بنا بریں مذکور اصول بے بنیاد ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں۔ یزید بن معاویہ کے لیے ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کہہ سکتے ہیں؟ سوال۔ سیدنا یزید رحمۃ اللہ علیہ کہہ سکتے ہیں ؟ ، حضرت حسین کا قاتل کون تھا؟ (ابو حنظلہ محمد محمود علوی) (۱13جون 1997ء) جواب۔ بعض کے نزدیک دعاء ترحّم (رحمت کی دعا) کا جواز ہے جب کہ دیگر متوقف ہیں۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل کے نام میں اختلاف ہے۔ بقول خلیفہ بن خیاط قاتل کا نام شمر بن ذی الجوشن ہے۔ اور مصعب نے اس کا نام سنان بن ابی سنان ذکر کیا ہے۔ [2] یزید بن معاویہ کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ کہنا سوال۔ ہمارے مولوی صاحب یزید بن معاویہ کو رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کیا یزید کے لیے سیدنا یزید اور رحمۃ اللہ علیہ کہنا جائز ہے یا نہیں؟(ابو حنظلہ محمد محمود علوی،ضلع اوکاڑہ) (15 مئی 1998ء) جواب۔ یزید کے بارے میں تین طرح کے لوگ ہیں ، کچھ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ تکفیر و تفسیق کے قائل ہیں اور تیسرا نظریہ ہے: (لَا نُحِبُّہُ وَ لَا نُبْغِضُہُ) ’’ہمیں نہ اس سے پیار ہے اور نہ بغض۔معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔۔ میرے خیال میں زیادہ سلامتی والا مسلک یہی ہے۔ یزید بن معاویہ کو دانستہ یا نادانستہ گالیاں اور برا بھلا کہنا سوال۔ کچھ حضرات دانستہ یا نادانستہ یزید بن معاویہ کو گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں، جب کہ میں نے ایک اہل
Flag Counter