Maktaba Wahhabi

315 - 614
وجہ پہلے بیان ہو چکی۔ ہاں البتہ زکوٰۃ کی رقم غریب طلبہ پر صرف ہونی چاہیے کیونکہ یہ لوگ فقر اور مسکینی جیسی صفات سے متصف ہیں جو مصارفِ زکوٰۃ کے اجزاء ہیں۔ اسی طرح وہ مدرس جس کی تنخواہ کے باوجود گزر اوقات مشکل ہو، کسب کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ فاقہ غالب ہے۔ مال زکوٰۃ سے اس کی بھی اعانت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس حیثیت سے نہیں کہ یہ مدرس ہے بلکہ اس بناء پر کہ یہ محتاج حقدار ہے۔ اسی طرح قربانی کی کھالوں کا استحقاق بھی فقراء و مساکین کا ہے۔ حدیث میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فروخت کرنے سے منع فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے صدقہ اس پر ہو گا جو اس کا حقدار ہے۔ صدقہ فطر اور کھالوں سے قاری صاحب کی تنخواہ کی ادائیگی؟ سوال۔ہم نے اپنی مسجد میں مقامی بچوں کی تعلیم کے لیے ایک قاری صاحب رکھے ہوئے ہیں جو صبح و شام بچوں کو قرآنِ مجید کی تعلیم دیتے ہیں۔ کیا ایسی شکل میں قاری صاحب کی تنخواہ(مسجد فنڈ کے علاوہ) صدقہ فطرانہ اور قربانی کی کھالوں سے دی جا سکتی ہے؟ (سائل حافظ عبدالرحمن صدیقی خطیب جامع مسجد محمدی اہل حدیث تلواڑہ راجپوتاں تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ) (25 دسمبر1992ء) جواب۔ صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ قاری صاحب جز وقتی اُستاد ہیں۔ بایں صورت اگر موصوف صاحب ِ وسعت ہیں تو خدمت ِ ہذا کو بلا معاوضہ سرانجام دینا چاہیے۔ بصورتِ دیگر ان کی تنخواہ کا بندوبست ہونا چاہیے لیکن صدقہ فطرانہ اور قربانی کی کھالوں سے ان کو کچھ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ محض غرباء و مساکین وغیرہ کا استحقاق ہیں۔ قرآن مجید میں ہے: (لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ) (البقرۃ:273) آیت ہذا سے پہلے صدقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر ارشاد ہے، یہ صدقات ان محتاجوں کے لیے ہیں جو اللہ کے راستے میں رُکے ہوئے ہیں۔ زمین میں سفر نہیں کر سکتے۔ یعنی تجارت نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے سے دینی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ احادیث میں قربانی کی کھالوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور آیت ہذا میں صدقات کے مستحق وہ لوگ قرار دیے گئے ہیں جو ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں محصور ہیں۔ اس میں اساتذہ کرام اور طلبہ سب شامل ہیں۔ لہٰذا قاری صاحب موصوف کو مذکور فنڈ سے تنخواہ دی جا سکتی ہے۔ تاہم اولیٰ یہ ہے کہ مسجد کے فنڈ کو مستقل طور پر بیت المال کی حیثیت دی جائے جہاں تمام قسموں کے صدقات و خیرات جمع ہوں پھر اسی سے جملہ مصارف کوپورا کیا جائے، جس میں اخراجات لائبریری وغیرہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔(ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ)
Flag Counter