Maktaba Wahhabi

334 - 614
مصرفِ زکوٰۃ ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں شامل ہے۔اور ’’مسند احمد‘‘ کی روایت میں حج کے ساتھ عمرہ کی بھی صراحت ہے۔(اَلْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ )[1] اس حدیث کی شرح میں امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: ” باب کی احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ حج اور عمرہ ’’فی سبیل اللہ‘‘میں شامل ہیں۔ جس شخص نے اپنے مال میں سے کوئی شئے اللہ کی راہ میں وقف کردی وہ اس کو حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کی تیاری میں صرف کرسکتا ہے اور جب کوئی سواری ہو توحاجی اور عمرہ کرنے والے کے لیے اس پر سواری کرنا جائز ہے۔ اور اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ زکوٰۃ کے حصے ’’ فی سبیل اللہ‘‘ سے کچھ اُن لوگوں پر بھی خرچ ہو سکتا ہے جو حج اور عمرے کا قصد کرتے ہوں۔ [2] زکوٰۃ کی رقم سے فلاحی ادارے یا دینی ادارے کا تعاون: سوال۔1۔کسی فلاحی ادارے یا دینی ادارے کو زکوٰۃ کی مَد سے رقم برائے مندرجہ ذیل امور دی جا سکتی ہے۔ 1۔ برائے تعمیر ہسپتال۔ بلڈنگ۔مشینری وغیرہ۔ 2۔ برائے تعمیر مدرسہ، عمارت و کتب برائے طلباء 3۔ برائے اشاعت تبلیغی لٹریچر برائے تقسیم۔(محمد الیاس۔دوائی والا۔ کراچی) (22 اگست1997ء) جواب۔ مذکورہ بالا چیزوں سے فائدہ اٹھانے والے اگر صرف مستحقینِ زکوٰۃ ہوں پھر تو مالِ زکوٰۃ کو ان اشیاء پر صرف کیا جا سکتا ہے ورنہ ناجائز ہے۔ اور تبلیغی لٹریچر پر بھی اسے صرف کرنا ناجائز ہے۔ کیوں کہ اس سے مستحقین کا حق تلف ہوتا ہے اور مالِ زکوٰۃ اغنیاء کے ہاتھ میں بھی جا سکتا ہے جو ان کے لیے حلال نہیں۔ زکوٰۃ کے مصارف میں سے فی سبیل اﷲ میں کون کون سے امور داخل ہیں؟ سوال۔ زکوٰۃ کے مصارف میں سے فی سبیل اﷲ میں کون کون سے امور داخل ہیں؟ محمد جہانگیر پوٹھ شیرڈ ڈیال میر پور کے۔ اے) (26 دسمبر 1997ء) جواب۔مصارفِ زکوٰۃ میں لفظ فی سبیل اﷲمیں جہاد بالاتفاق داخل ہے۔ حج بھی فی سبیل اﷲ میں داخل ہے۔ اس کی باب ’’ابوداؤد‘‘ باب العمرۃ میں صریح حدیث موجود ہے۔ اور ’’نیل الاوطار‘‘ کتاب الزکوٰۃ باب الصرف فی سبیل اﷲ میں بعض اور روایتوں کا بھی ذکر ہے۔
Flag Counter